دمشق (نیوزڈیسک)شام کے صدر بشار الاسد نے کہا ہے کہ ان کے ملک میں جاری لڑائی میں روس کی شمولیت سے جنگ کا توازن تبدیل ہوا ہے اور امریکہ کی زیر قیادت اتحاد کے برعکس دولتِ اسلامیہ کے خلاف روس کی عسکری سرگرمیاں فیصلہ کن اور موثر ثابت ہوئی ہیںچیک ٹی وی کو دئیے گئے انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ مغربی ممالک کے ایک سال سے جاری فضائی حملوں کے باوجود دولتِ اسلامیہ کے شدت پسندوں کی پیش قدمی نہیں روکی جا سکی تھی۔انہوںنے کہاکہ روس کی جانب سے کارروائیوں کے آغاز کے بعد سے دولتِ اسلامیہ اور دیگر شدت پسند گروپ کمزور ہونا شروع ہوگئے۔بشار الاسد نے کہا کہ (امریکہ کی سربراہی میں) اتحاد کی قیام کے بعد سے اگر آپ حقائق کی بات کریں تو دولت اسلامیہ کا اثر بڑھا ہی ہے اور دنیا بھر سے ان کی بھرتی میں اضافہ ہوا ہوا تاہم جب سے اس جنگ میں روس شامل ہوا ہے دولت اسلامیہ اور النصرہ سمیت دیگر دہشت گرد گروپ سکڑ رہے ہیں چنانچہ یہی حقیقت ہے جو ثبوتوں سے ظاہر ہے۔بشار الاسد نے کہا کہ شام میں روسی مدد اور شراکت مضبوط تر ہو رہی ہے اور وہ پہلے سے ہی مضبوط ہے اور اس سلسلے میں پیچھے ہٹنے کا کوئی امکان نہیں۔ترکی کی جانب سے روسی طیارہ گرائے جانے سے متعلق سوال پر شامی صدر نے کہا کہ ترک صدر رجب طیب اردوغان اس نئی صورتحال میں اپنے اعصاب پر قابو نہیں رکھ پا رہے۔میرے خیال میں اس سے اردوغان کی اصل نیت سامنے آئی ہے جو کہ اس لیے اپنے اعصاب پر قابو کھو بیٹھے ہیں کہ روسی مداخلت نے زمین پر جنگ کا توازن تبدیل کر دیا ہے۔انھوں نے کہا کہ شام میں اردوغان کی ناکامی یعنی ان کے دہشت گرد گروپوں کی ناکامی کا مطلب ان کی سیاسی موت ہے ¾اس لیے وہ کامیابی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں اور اسی لیے انھوں نے یہ کیا لیکن میرے نزدیک اس سے فرق نہیں پڑے گا کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہے۔