شارجہ(نیوز ڈیسک ) قومی کرکٹ ٹیم کی پے درپے شکستوں پر کوچ وقار یونس نے اپنا دامن جھاڑتے ہوئے سلیکٹرز پرملبہ گرا دیا، ان کا کہنا ہے کہ کارکردگی ا?نکھیں کھولنے کیلیے کافی ہے، کئی ایسی خامیاں سامنے آئیں جو اس سے پہلے دکھائی نہیں دے رہی تھیں۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان آئندہ برس بھارت میں شیڈول ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کیلیے مضبوط اسکواڈ تشکیل دینے کی کوشش کررہا ہے۔مگرانگلینڈ کے خلاف سیریز میں کلین سوئپ نے کئی سوال چھوڑ دیے، تینوں میچز میں ہدف عبور کرنے میں ناکام رہنے والے گرین شرٹس کی بیٹنگ، فٹنس اور فیلڈنگ میں ماضی کے مسائل نے سراٹھایا تو ایک نئی مصیبت بھی گلے پڑگئی، رن ا?و¿ٹس کی بھرمار نے مہمان ٹیم کیلیے ا?سانیاں پیداکردیں، ہیڈکوچ وقار یونس اپنی کوتاہی تسلیم کرنے کو تیار نہیں، شارجہ میں تیسرا میچ ختم ہونے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انھوں نے ڈھکے چھپے الفاظ میں سلیکٹرز کو تنقید کا نشانہ بنایا، وقار یونس نے کہا کہ یواے ای میں شکستیں آنکھیں کھولنے کیلیے کافی ہیں۔
اس سیریز میں کئی ایسی خامیاں سامنے آئیں جو اس سے پہلے دکھائی نہیں دے رہی تھیں، دونوں ٹیموں میں سب سے واضح فرق فٹنس کا تھا، ٹی ٹوئنٹی بہت تیز کرکٹ ہے، انگلش پلیئرز نوجوان اور فٹ تھے، پاکستانی ٹیم ان کا مقابلہ نہ کر سکی،فٹنس مسائل کا حل بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ3 فارمیٹ کیلیے مختلف کھلاڑی مختصر وقت اسکواڈ کے ساتھ ہوتے ہیں۔
انھیں سپر فٹ رکھنے کیلیے مستقل بنیادوں پر تربیتی کیمپس اور نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں کام کرنا ہوگا تاکہ جب بھی پلیئر ٹیم میں آئے ذہنی اور جسمانی طور پر تیار ہو۔ ہیڈ کوچ نے کہا کہ میرے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ عمر اکمل، احمد شہزاد اور صہیب مقصود جیسے کھلاڑی ٹیلنٹ ہونے کے باوجود کارکردگی کیوں نہیں دکھا رہے۔
تینوں اب 18یا 19سال کے نوجوان نہیں، پختہ ہوچکے ہیں، انھیں ہر ٹور پر کھیلنے کے متواتر مواقع مل رہے ہیں لہٰذا اب سلیکٹرز کو کچھ سوچنا ہوگا، انگلینڈ کی نوجوان ٹیم اور اس کا عزم ا?پ کے سامنے ہے، گرین شرٹس میں اسی کی کمی تھی۔ وقار یونس سے جب پوچھا گیا کہ کیا مسلسل ناکام کرکٹرز کو خدا حافظ کہنے کا وقت آگیا توانھوں نے کہا کہ یہ میرا کام نہیں، سلیکٹرز بھی میچز دیکھ رہے ہوں گے، انھوں نے سب کی فٹنس بھی دیکھی ہوگی۔
یہ سوال انہی سے پوچھا جائے کہ وہ کارکردگی نہ دکھانے والے کھلاڑیوں کو کب تک ٹیم میں رکھنا چاہیں گے، البتہ یہ کہہ دینا قبل ازوقت ہوگا کہ ان کی کرکٹ ختم ہوگئی،ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی قریب ہے اور ہمارے پاس بیک اپ میں کون سے کھلاڑی موجود ہیں، 39سالہ رفعت اللہ کو نوجوانوں کے فارمیٹ کی کرکٹ کیلیے منتخب کرنے کے سوال پر انھوں نے کہا کہ سلیکٹرز ہی اپنے پلان کا بتا سکتے ہیں کہ کس پلیئر کے ساتھ کتنا چلنا ہے۔
اوپنر کی کارکردگی معمولی رہی،ڈومیسٹک کرکٹ پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انھیں عمدہ پرفارمنس کا صلہ دیا گیا تھا لیکن توقعات پر پورا نہ اترسکے۔ ہیڈ کوچ نے پاکستانی بیٹسمینوں خاص طور پر محمد حفیظ کے بار بار رن ا?و?ٹس میں ملوث ہونے پر شدید ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسکول کے لڑکوں جیسی غلطی معلوم ہوتی ہے، کھلاڑی بچے نہیں، انتہائی تجربہ کار ہیں، ایسا نہیں کہ نئے پلیئر کو موقع دیا اور وہ دباو¿ میں ا?گیا، یہ غفلت برداشت نہیں کی جا سکتی، صورتحال انفرادی طور پر کھلاڑی اور پوری ٹیم کیلیے پریشان کن ہے، اگر اسی طرح دباو? میں ا?تے رہے تو ٹیم جیت نہیں سکے گی۔
وقار یونس نے کہا کہ اہم موقع پر ہمت ہارنے کا مسئلہ واقعی قابل تشویش ہے جس پر کوچز کام بھی کرتے ہیں، اس کے باوجود فتح کے قریب ہونے کے باوجود منزل تک نہیں پہنچ پارہے۔
انگلینڈ کیخلاف سیریز کے 2میچز میں بھی موقع ہونے کے باوجود کامیابی کوگلے نہ لگا سکے۔ مینجمنٹ اور سلیکٹرز کی جانب سے ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹہرائے جانے کے سوال پر ہیڈ کوچ نے کہا کہ مشکل صورتحال ہے،یہ وقت ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے کا نہیں، ٹیم کی موجودہ کارکردگی کے بعد سب کو مل بیٹھ کر سوچنا اور مشترکہ طور پر ذمہ داری لینی ہوگی۔
پے درپے شکست، وقار یونس نے سلیکٹرز پرملبہ گرا دیا
2
دسمبر 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں