کراچی(نیوز ڈیسک) بھارت اور بنگلہ دیش پر پاکستان کے اثاثوں اور واجبات کی مد میں مجموعی واجبات 14ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔تقسیم ہند کے وقت پاکستان کے حصے میں آنے والے مالی اثاثوں، زیر گردش نوٹوں، برٹش انڈیا کے خزانے میں سے پاکستان کے حصے میں آنے والا سونا، طلائی سکے اور سیکیورٹیز 68سال گزرنے کے باوجود پاکستان کو ادا نہیں کیے گئے۔ اسی طرح سقوط ڈھاکہ کے وقت مشرقی پاکستان میں پاکستان کی زیر گردش کرنسی، سیکیورٹیز اور ذخائر کی مد میں پھنس جانے والے بھاری مالیت کے اثاثے اور واجبات بھی بنگلہ دیش نے آج تک پاکستان کو ادا نہیں کیے۔ اس مد میں بھارت پاکستان کے 5ارب 45کروڑ روپے جبکہ بنگلہ دیش 8ارب 56کروڑ روپے کا مقروض ہے۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ جمہوریت کے تصور کو عملی طور پر سیاہ کرنے کے باوجود دنیا میں جمہوریت کا چیمپیئن بننے والا بھارت اور اس کے ساتھ پینگیں بڑھانے کے لیے سقوط ڈھاکہ کے وقت پاکستان کے ساتھ وفادی داری نبھانے والوں کو چن چن کر تختہ دار تک پہنچانے والی بنگلہ دیش کی حکومت نے کبھی پاکستان کے اس قرض کو چکانے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔دوسری جانب پاکستان میں آنے جانے والی کسی بھی حکومت نے ان ملکوں سے پاکستانی عوام کے حق کا تقاضہ تک نہیں کیا جس کی وجہ سے اربوں روپے کی رقوم وصول نہ ہوسکیں۔ پاکستان کا مرکزی بینک 7دہائیوں سے اپنے کھاتوں میں بھارت کے ذمے اس رقم کا حساب کتاب درج کررہا ہے تاہم اس حساب کے بے باق ہونے کی کوئی امید نہیں ہے۔ اسٹیٹ بینک کے کھاتوں کے مطابق مالی سال 2014۔15کے اختتام تک بھارت پر واجب 5ارب 45کروڑ 9لاکھ 37ہزار روپے تک پہنچ چکی ہے۔ مالی سال 2014۔15کے دوران سونے کی عالمی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے واجب اثاثوں کی مالیت میں 36کروڑ روپے کی کمی واقع ہوئی مالی سال 2013۔14کے اختتام پر بھارت کے ذمے اثاثوں کی مد میں واجبات کی مالیت 5ارب 86کروڑ 68لاکھ 70ہزار تھی۔مالی سال 2014۔15کے اختتام پر بھارت کے ہاتھوں غصب شدہ پاکستان کے حصے میں آنے والے سونے کے ذخائر کی مالیت 4ارب روپے ریکارڈ کی گئی۔ اسی طرح پاؤنڈ اسٹرلنگ کی شکل میں واجب اثاثوں کی مالیت 52کروڑ 87لاکھ 22ہزار روپے، گورنمنٹ ا?ف انڈیا کی سیکیوریٹیز کی مد میں واجب اثاثوں کی مالیت 22کروڑ 82لاکھ روپے، اسی طرح قیام پاکستان کے وقت پاکستان کے حصے میں آنے والی انڈین کرنسی کی واجب مالیت 68کروڑ 66لاکھ 27ہزار روپے تک پہنچ چکی ہے۔ یہ اثاثے قیام پاکستان کے وقت پاکستان مانیٹری سسٹم اینڈ ریزر بینک آرڈر 1947کے تحت ریزرو بینک آف انڈیا سے پاکستان کو منتقل ہونا تھے تاہم یہ ادائیگیاں آج تک نہ ہوسکیں۔قیام پاکستان کے بعد کچھ عرصے تک دونوں ملکوں میں ایک ہی کرنسی رائج رہی پاکستان نے اپنی پہلی کرنسی نوٹوں کی طباعت کیلیے بھارتی ریزور بینک کو رقم کی ادائیگی کی تاہم بھارت یہاں بھی پاکستان سے ہاتھ کرگیا اور آج تک یہ کرنسی نوٹ پاکستان کو نہ مل سکے اس مد میں بھارت پر 4کروڑ روپے سے زائد کی رقم واجب ہے۔ سقوط پاکستان کے وقت مشرقی پاکستان میں بین الدفاتر لین دین کی مد میں 82کروڑ روپے کے واجبات پھنس گئے جو بنگلہ دیش نے آج تک ادا نہ کیے۔ اسی طرح مشرقی پاکستان میں پاکستان کے جاری کردہ قرضہ جات ایڈوانس اور کمرشل پیپرز جو اب بنگلہ دیش کی ذمے داری ہے پاکستان کو ادا نہیں کیے گئے جن کی مجموعی مالیت 7ارب 70کروڑ روپے تک پہنچ چکی ہے۔