اسلام آباد (نیوز ڈیسک )اقوام متحدہ نے ماحولیاتی تبدیلی پر قابو پانے کے لیے 146 ممالک کی جانب سے جمع کرائے گئے قومی منصوبوں سے مستقبل میں پڑنے والے اثرات کے اندازے جاری کر دیے ہیں۔حکام کا کہنا ہے کہ یہ گزارشات عالمی درجہ حرارت کو اس کی آخری خطرناک حد دو ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر جانے سے روکنے میں ناکام رہیں گی۔موسمی تبدیلی کانفرنس: اقدامات موثر ہونے پر بات کرنے سے گریزاںعالمی حدت میں اضافے کا عمل تھما نہیں ہے‘خیال ہے کہ دنیا میں کاربن کا مجموعی اخراج بڑھتا رہے گا، البتہ اس کی رفتار پچھلی دو دہائیوں سے ہونے والے اخراج کے مقابلے میں سست ہو گی۔تاہم اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یہ منصوبے ایک اہم پیش رفت ہیں اور دو ڈگری سینٹی گریڈ کا ہدف ’ہماری پہنچ میں ہے۔‘اقوام متحدہ کو یقین ہے کہ یہ قومی ماحولیاتی منصوبے، جن کو طے شدہ مستقل قومی اشتراک (آئی این ڈی ایس) کہا جا رہا ہے، موسمیاتی تبدیلی کے لیے ایک مضبوط عالمی معاہدے کی بنیاد ثابت ہوں گے۔اس سال دسمبر میں پیرس میں ہونے والی کانفرنس میں تمام ممالک اس معاہدے کی منظوری دیں گے۔اقوام متحدہ کے مطابق یہ منصوبے کاربن کے مجموعی اخراج کے تقریباً 86 فیصد کا احاطہ کرتے ہیں، جو کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے سب سے پہلے معاہدے کیوٹو پروٹوکول کے مقابلے میں چار فیصد زیادہ ہے۔اس سال دسمبر میں پیرس میں ہونے والی کانفرنس میں تمام ممالک اس معاہدے کی منظوری دیں گےان منصوبوں کے بارے میں اندازے واقعی خوش آئند ہیں۔ حالانکہ یہ تمام گزاشات صنعتی دور سے پہلے کے درجہ حرارت میں مجموعی طور پر2.7 فیصد اضافے کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔سائنس دانوں کو یقین ہے کہ اگر دنیا کا درجہ حرارت دو ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیا تو انتہائی خطرناک موسمی تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں، جو دنیا کی غریب آبادی کو سب سے زیادہ متاثر کریں گی۔اقوام متحدہ کی ماحولیات کی سربراہ کرسٹینا فیگورس کا کہنا ہے کہ یہ منصوبے پہلا بہترین قدم ہیں۔ ’آئی این ڈی سیز میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ 2100 تک متوقع درجہ حرارت کو 2.7 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کر سکتے ہیں۔ یہ کافی تو نہیں لیکن ان منصوبوں سے پہلے خیال کیا جا رہا تھا کہ آئندہ سالوں میں دنیا کا درجہ حرارت چار، پانچ ڈگری یا اس سے بھی اوپر جا سکتا ہے۔‘ان منصوبوں کی کامیابی کا 25 فیصد انحصار دنیا کے امیر ممالک کا غریب ممالک کے ساتھ مالی تعاون سے مشروط ہے مبصرین کا کہنا ہے کہ 2.7 ڈگری سینٹی گریڈ گذشتہ سال دسمبر مں لگائے جانے والے اندازے 3.1 سے کافی کم ہے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق آئی این ڈی سیز کے ذریعے 2030 تک کاربن کا فی کس اخراج کم ہوکر نو فیصد تک رہ جائے گا۔کاربن ڈائی اوکسائڈ کی پیداوار کم ہونے کے باوجود فضا میں اس کی مجموعی تعداد اگلے 15 سال تک بڑھتی رہے گی۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 2010 کے مقابلے میں 2030 میں کاربن کا مجموعی اخراج 22 فیصد زیادہ ہو گا۔دوسری تشویش یہ ہے کہ ان منصوبوں کی کامیابی کا 25 فیصد انحصار دنیا کے امیر ممالک کا غریب ممالک کے ساتھ مالی تعاون سے مشروط ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ 2.7 ڈگری سینٹی گریڈ گذشتہ سال دسمبر مں لگائے جانے والے اندازے 3.1 سے کافی کم ہے ان تمام مسائل کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک جن میں امیر اور غریب دونوں شامل ہیں ، کاربن کے اخراج کو روکنے کے لیے اپنی سفارشات جمع کروا چکے ہیں، جو ماحولیات پر کام کرنے والوں کے لیے امید افزا ہے۔ورلڈ ریسورس انسٹیٹیوٹ سے تعلق رکھنے والی تارین فرانسس نے 2009 میں ڈنمارک کے دارلحکومت کوپن ہیگن میں ناکام کانفرنس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’اس مرتبہ 105 ممالک نے گرین ہاو¿س گیسوں میں کمی کرنے کا اعادہ کیا ہے۔ 2009 میں صرف 27 ممالک نے اس میں حصہ لیا تھا۔‘