’’آپ فائز کو نہیں لے کر آئے‘ میں نے کہا تھا آپ سب نے آنا ہے‘‘ میرا میزبان ناراض ہو گیا‘ میری ہنسی نکل گئی‘ میں نے بڑی مشکل سے اسے کنٹرول کیا‘ معذرت کی اور پھر بڑے پیار سے بتایا ’’اسے فلو اور بخار ہے‘ وہ یہاں آ کر سب کو بیمار کردیتا‘ ہم اسے اس لیے نہیں لے کر آئے‘‘ میزبان کو تھوڑا سا اطمینان ہوا لیکن اس کی ناراضی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی‘ میرا تھیسس اس دن ایک بار پھر سچ ثابت ہو گیا‘ میں اپنے دوستوں سے اکثر کہتا ہوں ہمارے معاشرے میں جو نہیں آتا اس کی زیادہ عزت ہوتی ہے‘ جو آ گیا اس کی کوئی قدر نہیں ہوتی مثلاً آپ کے کسی دوست نے آپ کو پورے خاندان سمیت شادی یا کھانے کی دعوت دے دی‘ آپ دس لوگوں کا خاندان ہیں‘ آپ آٹھ یا نولوگ دو تین گاڑیوں میں ٹھس کر وہاں پہنچ گئے لیکن آپ کے والد یا والدہ کسی مجبوری کے باعث گھر رہ جاتے ہیں یا آپ کی بیگم یا کوئی بیٹی یا بیٹا ساتھ نہیں آ پاتا‘ آپ جوں ہی تقریب میں پہنچیں گے آپ کا میزبان فوراً شکوہ کرے گا آپ ابو اور امی کو لے کر کیوں نہیں آئے اور اس کے بعد ناراضی شروع ہو جائے گی یعنی آپ دیکھ لیں دس میں سے آٹھ افراد آ گئے‘ ان کی کوئی قدر‘ کوئی ویلیو نہیں لیکن جو نہیں آیا میزبان کی نظر میں صرف اس کی وقعت ہے‘
میزبان سے کوئی پوچھے بھائی جو آ گئے ہیں آپ پہلے ان سے تو مل لو‘ ان کی عزت تو کر لو‘ ان کا شکریہ تو ادا کر لو‘ تمہیںوہ آٹھ لوگ جو گاڑیوں میں ٹھس کر پہنچے وہ نظر نہیں آ رہے‘ جو پیچھے رہ گیاتمہیں وہ دکھائی دے رہا ہے! دوسرا آپ نے اکثر کھانوں میں دیکھا ہو گا جو لوگ وقت کی پابندی کرتے ہیں‘جنہیں جس وقت بلایا گیا وہ عین اس وقت پہنچ گئے لیکن میزبان انہیں بٹھا کر ان لوگوں کا انتظار کرے گا جو وقت پر نہیں پہنچ سکے‘ جو لیٹ ہیں یا جو ہمیشہ لیٹ ہوجاتے ہیں‘ میزبان اس صورت حال میں بار بار آپ کے پاس آئے گا اور مسکرا کر کہے گا بس فلاں صاحب آ رہے ہیں‘ یہ جوں ہی پہنچ جائیں گے ہم کھانا شروع کر دیں گے اور اس کے فوراً بعد گیٹ پر کھڑے ہوکر لیٹ ہونے والے کا انتظار شروع کر دے گا یعنی قدر اور اہمیت کس کی ہوئی؟ جو نہیں آ یا یا جس نے آپ کے وقت اور دعوت کی عزت نہیں کی۔
میں نے یہ سماجی علت بہت پہلے بھانپ لی تھی لہٰذا میں کوشش کرتا ہوں جو نہیں آ یا یا جو وقت پر نہیں پہنچ سکا اس کے لیے وقت پر آنے والوں یا پہنچ جانے والوں کو انتظار نہ کرائوں یا ان سے شکوہ نہ کروں‘ میں وقت پر کھانا شروع کرا دیتا ہوں اور یوں تاخیر سے آنے والوں کولیٹ کھانا ملتا ہے یا ٹھنڈا کھانا پڑتا ہے‘ میرے دوست شروع میں مائینڈ کر جاتے تھے لیکن یہ آہستہ آہستہ میری اس ’’بدتمیزی‘‘ کو برداشت کرنا سیکھ گئے اور یہ اب وقت پر تشریف لاتے ہیں‘ دوسرا جو نہیں آتے میں ان کے بارے میں نہیں پوچھتا‘ میں آنے والوں کی عزت اور قدر زیادہ کرتا ہوں‘ ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں‘ انہیں عزت کے ساتھ بٹھاتا ہوں اور کھل کر گپ شپ کرتا ہوں‘ یہ اگر خود پیچھے رہ جانے والوں کا ذکر کر لیں تو ٹھیک ورنہ پہنچ نہ پانے والوں کا پوچھ کر انہیں شرمندہ نہیں کرتا‘ میں نے وقت کے ساتھ ساتھ دعوت کا طریقہ بھی تبدیل کر دیا ہے‘ میں جس کو دعوت دیتا ہوں اس سے عرض کرتا ہوں آپ اگر سب لوگ تشریف لائیں گے تو میری عزت افزائی ہو گی لیکن آپ اس کے باوجود اپنی سہولت دیکھیں‘آپ اپنے آپ کو زیادہ تنگ نہ کیجیے گا‘ اس سے میرے دوست ایزی ہو جاتے ہیں‘ میں یہاں اپنے دو دوستوں کا ذکر کروں گاجن کی عادتوں کی وجہ سے میں ان کا بہت بڑا فین ہوں‘ عرفان جاوید میرے بہت پرانے دوست ہیں‘ ان سے ملاقات کو 25 برس ہو چکے ہیں اور ہم تقریباً روزانہ ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں‘ گزشتہ ماہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا‘ میں نے فوراً فون کیا اور جنازے کا وقت پوچھا‘ ان کے والدین لاہور رہتے ہیں‘ والد کا جنازہ بھی لاہور میں تھا‘ عرفان جاوید والد سے بے انتہا محبت کرتا تھا لیکن دکھ کے اس عالم میں بھی اس نے بڑے کھلے دل سے کہا‘ آپ کا ورکنگ ڈے ہے‘
آج آپ کا شو ہے‘ آپ اگر نکلیں گے تو بھی وقت پر نہیں پہنچ سکیں گے‘ آپ کسی آف ڈے دعا کے لیے آ جانا‘میں ابھی چند دن لاہور ہوں‘ میں عرفان جاوید کی بہت قدر کرتا ہوں لیکن اس وقت اس قدر میں اضافہ ہو گیا‘ میں نے خود بھی وقت کا تخمینہ لگایاتھا‘ میں ڈیڑھ سو کلومیٹر کی سپیڈ سے گاڑی چلا کر بھی جنازے پر نہیں پہنچ سکتا تھا چناں چہ میں ویک اینڈ پر لاہور گیا‘ عرفان جاوید سے تعزیت کی اور دیر تک اس کے ساتھ بیٹھا رہا‘ میرے اپنے والد کا جب انتقال ہوا تو میں نے اخبار میں چھوٹا سا اشتہار دے دیا اور سوشل میڈیا پر پوسٹ لگادی جس میں احباب سے صرف دعا کی درخواست کی گئی جنازے کا وقت اور جگہ کی نشان دہی نہیں کی‘ کیوں؟ کیوں کہ اس سے احباب کو تکلیف ہوتی‘ یہ بے چارے دو چار سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے گائوں پہنچتے‘ اس سے ان کو خواری ہوتی‘ دنیا سے جانے والا چلا گیا‘ کوئی شخص اس کا مداوا نہیں کر سکتاچناں چہ پھر بلاوجہ دوسروں کو تکلیف دینے کی کیا ضرورت ہے؟ جو قریب تھا وہ پہنچ گیا‘ جو دور تھا وہ اپنی سہولت کے مطابق آ گیا‘ ہم جنازے بڑے کر کے یا دوستوں کو تکلیف دے کر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ اسی طرح شادیاں بھی محدود اور قریبی احباب تک رہنی چاہییں تاکہ فیملی کے لوگ خوشی کو خوشی کی طرح منا سکیں بجائے اس کے کہ اجنبی لوگ بچیوں اور گھر کی خواتین کے درمیان پھر رہے ہوں یا تصویریں بنا رہے ہوں یا میزبان اپنے تمام مہمانوں سے ملاقات ہی نہ کر پائے یا خود اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی کا کھانا انجوائے نہ کر سکے‘ میرے ایک فیملی فرینڈ ہیں‘ انہوں نے پچھلے ہفتے اپنے بیٹے کا نکاح فیصل مسجد میں کرایا اور نہایت چھوٹا ولیمہ کیا‘ ہم بمشکل پچاس لوگ ہوں گے‘
آپ یقین کریں وہ اتنی شان داراور باوقار تقریب تھی کہ آپ تصور نہیں کر سکتے‘ ہم سب ایک دوسرے کو جانتے تھے‘ دولہا اور دلہن نے بھی ہمارے ساتھ کھانا کھایا اور کھل کر گپ شپ کی‘ نئے جوڑے نے پارلر پر بھی وقت اور سرمایہ برباد نہیں کیا تھا‘ میرے دوست نے اس تقریب سے جتنے پیسے بچائے اس نے اس کے دو حصے کیے‘ ایک حصہ جوڑے کے حوالے کیا اور وہ اس رقم سے ہنی مون پر یورپ جائیں گے اور دوسرے حصے سے اس نے تین غریب بچیوں کو جہیز بنا کر دے دیا‘ آپ ذرا ملاحظہ کریں‘ چھوٹے سے فیصلے سے کتنے لوگوں کا بھلا ہواجب کہ اس کے مقابلے میں میرے ایک دوست نے اپنے بیٹے کی شادی پر 14 کروڑ روپے خرچ کر دیے‘ پندرہ ہزار مہمان آئے جس کے تین نقصان ہوئے‘ 14 کروڑ روپے برباد ہو گئے‘ نیا جوڑا اس رقم سے گھر‘ گاڑی یا ہنی مون پیکج لے سکتا تھا‘ دوسرا میرا دوست تمام مہمانوں سے مل نہیں سکا‘ ایک دو گھنٹے میں پندرہ ہزار لوگوں سے ملاقات ممکن ہی نہیں تھی لہٰذا لوگ آج بھی اس سے گلہ کرتے ہیں‘ آپ نے ہمیں شادی میں پہچانا ہی نہیں تھااور تیسرا یہ لوگوں کے کھانے اور اٹھنے بیٹھنے پر توجہ نہیں دے سکا‘ یہ پندرہ ہزار لوگوں سے ملتا یا پھر کھانے کی گرمائش چیک کرتا چناں چہ لوگوں کو کھانا بھی ٹھنڈا ملا چناں چہ اس ساری ایکسرسائز کا کیا فائدہ ہوا؟
میرے دوسرے دوست سہیل مقصود سپین کے شہر غرناطہ میں رہتے ہیں‘ ان کے ساتھ اچانک ملاقات ہوئی اور دیرینہ دوستی میں بدل ہو گئی‘ ان میں تین حیران کن خوبیاں ہیں‘ یہ وقت اور وعدے کی پابندی کرتے ہیں‘ یہ جو کہہ دیتے ہیں وہ کرتے ہیں‘ دوسراجرات مند اور حوصلے والے شخص ہیں‘ برداشت کر جائیں گے‘ ساتھ کھڑے ہو جائیں گے اور بوقت ضرورت پیٹھ نہیں دکھائیں گے اور تیسری اور اہم ترین خوبی یہ دوسرے کو سپیس دیتے ہیں مثلاً میں اگر سپین جائوں تو یہ میری رہائش اور سواری کا بندوبست کریں گے اور اس کے بعد کہیں گے میں چوبیس گھنٹے دستیاب ہوں‘ آپ کو جہاں ضرورت پڑے مجھے فون کریں میں پندرہ منٹ میں آپ کے پاس ہوں گا‘ آپ اب اپنی مرضی سے گھومیں اور پھریں‘ دوسرا یہ جب بھی پاکستان آئیں گے‘ یہ بتائیں گے میں آ رہا ہوں‘ فلاں دن آپ کے پاس آئوں گا اور ہم اتنا وقت ساتھ گزاریں گے‘ مجھے اس کے علاوہ آپ سے جو بھی چیز یا سپورٹ چاہیے ہو گی میں خود بتائوں گا‘ آپ اپنی روٹین کے مطابق اپنا کام جاری رکھیں‘میں نے ان کے منہ سے کبھی کوئی شکوہ یا کوئی شکایت نہیں سنی۔
میری آپ سے درخواست ہے آپ جو نہیں آیا اس کی قدر کرنا بند کردیں‘ جو لوگ آ گئے ہیں ان کی خوشی منائیں‘ ان کا شکریہ ادا کریں‘ دوسرا جو لوگ آپ کی دعوت پر وقت پر پہنچ گئے ہیں‘ جنہوں نے آپ کا بھرم‘ آپ کی عزت رکھی‘ آپ انہیں ان لوگوں کے لیے انتظار نہ کرائیں‘ جو وقت پر نہیں آئے‘تیسرااپنی تقریبات کو محدود اور وسائل کے اندر رکھیں‘ آپ اپنی عمر بھر کی کمائی چند گھنٹوں میں ان دو چار ہزار لوگوں پرکیوں ضائع کرتے ہیں جو کسی قیمت پر آپ سے خوش نہیں ہوں گے اورچوتھا دوسروں کی سہولت کاخیال رکھیں‘ انہیں خود فون کر کے بتائیں آپ کے آنے سے میری خوشی میں اضافہ یا غم میں کمی ہو گی لیکن آپ اپنی سہولت اور آرام کاخیال رکھیں‘ آپ آج آ سکتے ہیں تو سو بسم اللہ‘ نہیں پہنچ سکتے تو کسی بھی دن آ جائیے گا‘ میں آپ کا انتظار کروں گا اور یہ یاد رکھیں شکوے‘ شکایتیں اور غیرمنطقی توقعات تعلقات کو ہمیشہ برباد کرتی ہیں‘ یہ انہیں مضبوط نہیں بناتیں چناں چہ اپنے دوستوں اور رشتے داروں سے کبھی شکایت نہ کریں‘ صرف غلط فہمی کی صورت میں وضاحت کر دیں اور بس‘ آپ کی زندگی مزید اچھی گزرے گی۔















































