اسلام آباد(نیوزڈیسک) ایک تھنک ٹینک نے وزارت پانی و بجلی اور حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے توانائی کے شعبے میں بہتری کے دعوؤں کو چیلنج کرتے ہوئے اس شعبے میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سابقہ حکومت کو بہتر قرار دیا ہے۔ انسٹیٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز (آئی پی آر) کی تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پیداوار کی صلاحیت بڑھانے اور لوڈ شیدنگ کم کرنے کے حکومتی دعوے اصل حقائق اور اعداد و شمار سے مختلف ہیں۔ آئی پی آر کی سربراہی سابق وزیر ترقیات ڈاکٹر حفیظ پاشا کر رہے ہیں، سابق وفاقی وزیر ہمایوں اختر خان اس تھنک ٹینک کے چیئرمین جبکہ ان کے بھائی اور وزیر اعظم کے مشیر ہارون اختر خان اس کے 5 رکنی بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبر ہیں۔ آئی پی آر کی تفصیلی رپورٹ میں تمام اسٹیک ہولڈرز سے توانائی کے شعبے میں بہتری کے لیے مشترکہ جدو جہد کرنے کا کہا گیا ہے کیونکہ بجلی کا بحران عوام کا اہم مسئلہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق وزارت پانی و بجلی ملک میں بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیے حکومتی اقدامات اور کامیابیوں کا چرچا کرتی نظر آتی ہے لیکن حقائق اس سے مختلف ہیں۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ مالی سال 2014-2013 میں بجلی کی پیداوار اور کھپت میں 9 فیصد اضافہ ہوا لیکن یہ گردشی قرضوں کے ختم ہونے اور اس وقت کی موجودہ صلاحیت کے بہتر استعمال کی وجہ سے ممکن ہو پایا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بجلی کی پیداوار کے لحاظ سے پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت کی کارکردگی بہتر تھی جبکہ مالی سال 2015-2014 کے پہلے 9 ماہ میں پیداوار میں کمی آئی ہے۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے مستقبل میں پاک چین اقتصادی راہداری کے بننے اور پن بجلی کے منصوبوں سے بجلی کی پیداوار میں اضافے کی امید کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ وزارت پانی و بجلی کے پورے ملک میں ایک جتنی لوڈ شیڈنگ کیے جانے، لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ کم ہونے اور صنعتی شعبے کے لیے بالکل لوڈ شیڈنگ نہ کیے جانے کے دعوے درست نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مالی سال 14-2013 میں گردشی قرضوں کی ادائیگی کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ میں کسی حد تک کمی آئی تاہم مالی سال 15-2014 میں اس میں کوئی بہتری نہیں آئی جبکہ صنعتی شعبے کو بھی بجلی کے تعطل کا سامنا ہے۔ تھنک ٹینک کی رپورٹ میں حکومت کی جانب سے پیداواری کمپنیوں اور انڈیپنڈنٹ پاور پراجیکٹس (آئی پی پیز) کی مدد کے لیے پیسے کے بہاؤ میں بہتری کے دعووں پر بھی سوالات اٹھاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حکومت کے یہ دعوے بھی حقائق کے منافی ہیں۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا کا مزید کہنا تھا کہ حکومت پاکستان نے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے توانائی کے شعبے میں دی جانے والی سبسڈی کم کرکے آدھی تک لانے اور صارفین کے ٹیرف میں سرچارج بڑھا کر 100 ارب روپے کا ٹارگٹ حاصل کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ سرچارج بڑھنے سے بجلی کی قیمت میں 20 سے 33 فیصد اضافہ ہوا جس سے اس صنعت میں مسابقت کو بری طرح نقصان پہنچا جبکہ صنعتی شعبے کے لیے بھی بجلی کی قیمتوں میں 23 فیصد اضافہ کردیا گیا جو ہندوستان اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت نے خاموشی سے فرنس آئل پر کئی طرح کی ڈیوٹیاں اور ٹیکس لگا کر لیویز کی مد میں 31 ارب روپے کا اضافہ کیا جس سے صارفین کو عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتیں کم ہونے کا فائدہ پوری طرح نہیں پہنچا۔