حافظ صاحب کے ساتھ میرا تعارف چھ سال کی عمر میں ہوا تھا‘ اس زمانے میں کالی کھانسی لا علاج ہوتی تھی‘ میرے اوپر اس کا حملہ ہوا اور میں قبر تک پہنچ گیا‘ لالہ موسیٰ میں ان دنوں ایک حکیم صاحب ہوتے تھے‘ وہ عرف عام میں حکیم سدھا والے کہلاتے تھے‘ میرے والد ان کے مرید تھے‘ ان کا کہنا تھا اگر یہ نہ ہوتے تو میں کبھی شہر آتا اور نہ آپ لوگ سکول میں پڑھ رہے ہوتے‘ میرے والد کا خیال تھا حکیم صاحب ولی کامل ہیں اور ان کی زبان اور دوا دونوں میں شفاء ہے‘ وہ اکثر حکیم صاحب کے پاس چلے جاتے تھے چناں چہ وہ مجھے حکیم صاحب کے پاس لے گئے‘ حکیم صاحب نے صرف میرا چہرہ دیکھا اور ایک عجیب سا نسخہ تجویز کیا‘ ان کا فرمانا تھا محمد خان (میرے والد کا نام) تم تازہ گندم لو‘ اسے ابالو‘ اس کا پانی اسے پلا دو اور ابلی ہوئی گندم اسے کھلا دو‘ یہ 15 دن میں ٹھیک ہو جائے گا‘ والد کو حکیم صاحب پر بہت یقین تھا لیکن والدہ ان ٹوٹکوں کے خلاف تھیں‘ انہوں نے یہ گندمی ٹوٹکا ماننے سے انکار کر دیاچناں چہ والد نے مجھے لیا اور گائوں لے جا کر دادی کے حوالے کر دیا‘ دادی کو پورا خاندان بے بے جی کہتا تھا‘ بے بے جی نے حکیم صاحب کے نسخے کے مطابق مجھے روزانہ دو ٹائم گندم ابال کر کھلانی اورپلانی شروع کر دی‘ اللہ کی کرنی یہ ہوئی میں واقعی ٹھیک ہو گیا‘ میں آج بھی جب کالی کھانسی اور گندم کا آپس میں جوڑ تلاش کرتا ہوں تو مجھے کوئی سرا نہیں ملتا‘ وہ خالصتاً حکیم صاحب کاکرشمہ تھا۔
یہ حکیم صاحب سے میرا پہلا تعارف تھا‘ میں اس کے بعد گاہے بگاہے ان کے مطب پر جاتا رہا‘ حکیم صاحب حافظ قرآن تھے‘ وہ سارا دن تلاوت فرماتے تھے اور مریض دیکھتے تھے‘ مریضوں پر بھی وہ صرف ایک نظر ڈالتے تھے اور سادا سا نسخہ تجویز کر دیتے تھے‘ ان کے پاس میلا لگا رہتا تھا‘ ان میں مریض بھی ہوتے تھے اور ان کے مرید بھی‘ وہ اکثر اوقات مجذوبیت میں کسی نہ کسی کے بارے میں کچھ فرما دیتے تھے اور پھر ویسا ہی ہو جاتا تھا‘ میں شروع میں والد صاحب کے ساتھ ان کے پاس جاتا تھا اور پھر اکیلا بھی چلا جاتا تھا‘حکیم صاحب کھاریاں کے قریب چھوٹے سے گائوں سدھ کے رہنے والے تھے‘ 12 سال کی عمر میں انہوں نے قرآن مجید حفظ کیا‘ اس کے بعد شریعت اور حکمت کی تعلیم حاصل کی اور لالہ موسیٰ میں آباد ہو گئے‘ طبیعت میں روحانیت پیدائشی تھی لہٰذا وظائف کی طرف چلے گئے‘مشہور تھا ان کے پاس جنات آتے تھے اور قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرتے تھے‘ بے شمار لوگ گواہی دیتے تھے ہم نے اپنی آنکھوں سے لوگوں کو آتے اور پھر بیٹھے بیٹھے غائب ہوتے دیکھا‘ مدتوں بعد ان کے صاحب زادوں سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے جنات کے بارے میں پوچھا‘ انہوں نے گواہی دی‘ بابا جی حضور کے پاس واقعی جنات آتے تھے‘ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا‘ بہرحال قصہ مختصر میں بارہ سال کی عمر میں ایک تپتی دوپہر میں حکیم صاحب کے پاس چلا گیا‘ میرے ہاتھ میں مشرق اخبار کا بچوں کا صفحہ تھا‘
حکیم صاحب اس دن اکیلے بیٹھے تھے‘ سخت گرمی تھی اور ہاتھ کا پنکھا پکڑ کراسے آہستہ آہستہ ہلا رہے تھے‘ مجھے دیکھ کر مسکرائے‘ اندر کی طرف منہ کر کے آواز دی‘ چھوٹا چودھری آیا ہے‘ اس کے لیے شربت بھجوا دیں‘ اندر سے جی اچھا کی آواز آئی اور وہ میری طرف متوجہ ہو گئے‘ مجھ سے پوچھا پتر تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟ میں نے ادب سے بچوں کا صفحہ ان کے سامنے رکھ دیا‘ حافظ صاحب نے اخبار دیکھا‘ اس پر عمرو عیار کی باتصویر کہانی چھپی تھی‘ حافظ صاحب نے پیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیرا‘ منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ کر پھونکااور فرمایا ’’پتر زندگی میں کچھ بھی ہو جائے اخبار نہیں چھوڑنا‘‘ تھوڑا سا رکے اور پھر فرمایا ’’لکھنا شروع کرو اور وہ بھی نہیں چھوڑنا‘‘ پھر رکے اور پھر فرمایا ’’بڑے ہو کر بولنا بھی شروع کر دینا اور وہ بھی نہیں چھوڑنا‘‘ تھوڑی دیر پھر رکے اور فرمایا ’’تمہارے مقدر میں کہانیاں ہیں‘ وہ بھی نہیں چھوڑنی‘‘ وہ رکے‘ کچھ سوچا اور پھر کچھ فرمانے لگے تھے کہ شربت آ گیا اور سلسلہ تکلم ٹوٹ گیا‘ آپ یقین کریں وہ وقت‘ حافظ کے فرمان اور ان کے ہاتھ کا گداز مجھے آج تک یاد ہے۔
میں کہانی کو مختصر کرتا ہوں‘ حافظ صاحب کے تین بیٹے تھے‘نصیر‘ ظہیر اور کبیر‘ میں نے بچپن میں نصیر اور ظہیر کو دیکھا تھا‘ یہ دونوں مجھ سے بڑے تھے اور اپنے والد کا پیر کی طرح احترام کرتے تھے‘بہرحال زندگی کا سفر جاری رہا‘ میں نے میٹرک کے بعد لالہ موسیٰ چھوڑ دیاجس کے بعد لوگوں سے رابطے بھی کم ہوتے چلے گئے لیکن حافظ صاحب ہمیشہ یاد رہے‘ اس کی تین وجوہات تھیں‘ میں نے زندگی میں بے شمار عبادت گزار‘ متقی اور پرہیز گار لوگ دیکھے ہیں لیکن حافظ صاحب کو ہمیشہ ان سے آگے پایا‘ دوسرا ان کے علاج سے میری جان بچی تھی اور تیسرا مجھے محسوس ہوتا تھا ان کی دعا نے میری زندگی کے راستے کشادہ کر دیے ہیں لیکن اس تمام تر عقیدت کے باوجود ان سے رابطے کم ہو گئے‘ مجھے اس زمانے میں پتا چلا حافظ صاحب کے دوسرے بیٹے ظہیر احمد نے ائیرفورس جوائن کر لی اور یہ اب جہاز اڑاتے ہیں‘ پھر پتا چلا حافظ صاحب علیل ہیں اور ان کا چلنا پھرنا مفقود ہو چکا ہے لیکن وہ اس عالم میں بھی ہر وقت تلاوت کرتے رہتے ہیں‘ میرے والد ان کی عیادت کے لیے جاتے رہتے تھے‘ ان کا کہنا تھا حافظ صاحب چارپائی تک محدود ہیں لیکن ان کے کمرے اور جسم سے انتہائی شان دار خوشبو آتی ہے‘ یہ مجذوبیت میں کچھ نہ کچھ فرماتے بھی رہتے ہیں لیکن ان کے الفاظ سمجھنا مشکل ہے‘ پھر پتا چلا حافظ صاحب انتقال فرما گئے ہیں اور ان کے مریدوں نے ان کے گائوں سدھ میں ان کا مزار بنا دیا ہے اور وہاں لوگ دعا کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں بہرحال قصہ مزید مختصر زندگی کا سفر جاری رہا‘ اس دوران پتا چلتا رہا حافظ صاحب کا بیٹا ظہیر احمد ائیرفورس میں مسلسل ترقی کر رہا ہے‘ پھرپتاچلا یہ ائیروائس مارشل بن گیا ہے اور یہ اپنے گائوں سدھ کے غریب اور لاچار لوگوں کی بے تحاشا مدد کرتا ہے‘ اس نے وہاں سڑکیں بھی بنوائیں‘ سکول بھی اور درجنوں لوگوں کا مفت علاج بھی کرایا‘ ان کے بڑے صاحب زادے نصیر احمد سیاست میں آئے اور آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے ہیں جب کہ تیسرے بیٹے نے بیرون ملک سے پی ایچ ڈی کی اور یہ بھی اپنی فیلڈ میں بہت مشہور ہے اور پھر اچانک عمران خان کے دور میں خبرآئی حافظ صاحب کے صاحب زادے ظہیر احمد بابر سدھو ائیر چیف بن گئے ہیں اور یہاں سے نئی کہانی شروع ہوگئی۔
دنیا پاکستان کی پانچ اوردس مئی کی فتوحات پرحیران ہے‘ سوائے میرے‘کیوں؟ کیوں میں جانتا ہوں یہ فتح حافظ صاحب مرحوم کی دعائوں کا نتیجہ ہے‘ حافظ صاحب کو اللہ تعالیٰ نے ظاہری اور باطنی دونوں علوم سے نواز رکھا تھا چناں چہ انہوں نے اس وقت ظہیر احمد بابر کو حکم دیا تھا جب یہ ائیرفورس میں میجر لیول کے آفیسر تھے ’’پتر آپ نے نصیر کے کہنے پر ائیرفورس نہیں چھوڑنی‘ تم اس میں وہاں تک جائو گے جہاں تک کوئی نہیں جا سکا‘‘ ظہیر صاحب اپنے بھائی نصیر کے زیر اثر ہیں‘ یہ ان کا بہت احترام کرتے ہیں اور نصیر صاحب نے ماضی میں انہیں کئی مرتبہ نوکری چھوڑنے کا مشورہ دیا لیکن حافظ صاحب کے حکم نے ہمیشہ ظہیر صاحب کو ر وک دیا اور آج یہ واقعی اس مقام پر ہیں جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے‘ ائیرمارشل ظہیر احمد بابر اولیاء کرام کا بہت احترام کرتے ہیں‘ یہ جب شورکوٹ میں تھے تو یہ فلائی کرتے ہوئے پہلے گڑھ مہاراجہ میں حضرت سلطان باہوؒ کے والدین کے مزار کوفضائی سلیوٹ کرتے تھے پھر حضرت سلطان باہوؒ کے مزار کو سلیوٹ کرتے تھے اور پھر آگے بڑھتے تھے‘ ان کا معمول تھا یہ فضا میں جہاں سے گزرتے تھے نیچے موجود اولیاء کرام کے مزارات کو سلام پیش کرتے ہوئے آگے بڑھتے تھے‘ والد کو بابا جی حضور کہتے ہیں اور جب بھی ان کا ذکر کرتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں‘ رسول اللہ ﷺ سے عشق ہے‘ ملک سے جب بھی باہر جاتے ہیں تو پہلے روضہ رسولؐ پر حاضری دیتے ہیں‘
روضہ مبارک کو سلیوٹ کرتے ہیں اور عرض کرتے ہیں حضور پاکستان کے ائیرچیف کا سلیوٹ قبول فرمائیں‘ ذہنی طور پر بے انتہا الرٹ اور چست ہیں‘اپنی ذات میں پوری لائبریری یا پوری یونیورسٹی ہیں‘ انٹیلی جنس سے لے کر اکانومی تک کسی موضوع پر بات کر لیں‘ یہ شخص آپ کو حیران کر دے گا‘ کمیونی کیشن بہت اچھی ہے‘ آپ چھ گھنٹے ان کے سامنے بیٹھے رہیں آپ کی توجہ ایک لمحے کے لیے دائیں بائیں نہیں ہو گی‘ہر واقعہ پوری تفصیل سے سنائیں گے اور چھوٹے سے چھوٹا جزو بھی مس نہیں ہو گا‘ کنونشنل وار سے سائبر وار تک اور کس جہاز میں کون سا پرزہ خراب ہے اور کس پائلٹ نے کون سا جہاز اڑانا ہے اور کس کو کس جگہ رکھنا ہے‘ پاکستان کے نقشے میں کون سا مقام کہاں ہے‘ کس جگہ ہوا کا دبائو کتنا ہے‘ بھارت‘ ایران‘ افغانستان اور چین چاروں ہمسایوں کی کم زوریاں اور طاقتیں کیا ہیں؟ دس سال میں کیا کیا تبدیلیاں آئیں گی اور انڈیا کی فوج اور سیاست میں کیا تبدیل ہو رہا ہے ان کو ایک ایک چیز ازبر ہے‘ پاکستان اور بھارت کی اس جنگ کے دوران یہ شخص وار روم سے باہر نہیں نکلا‘ سٹاف کو سلا دیتے تھے لیکن خود جاگتے رہتے تھے‘ ان کے صرف تین کام ہوتے تھے‘ سجدے‘ اللہ سے فتح کی منت اور ائیرفورس کی فارمیشن‘ ان دس دنوں میں ان کی آنکھیں سوجھ گئیں لیکن انہوں نے آرام نہیں کیا یہاں تک کہ پانچ اور چھ مئی کی درمیانی رات پوری فوج (آرمی‘ نیوی اور ائیرفورس) تالیاں بجا رہی تھی اور 10مئی کی دوپہر تک تمام وار رومز سے اللہ اکبر‘ پاکستان زندہ باد اور ائیرچیف پائندہ باد کے نعرے لگ رہے تھے لہٰذا اس ایک شخص نے وہ کر دکھایا جس کی دنیا کو امید تک نہیں تھی۔
دنیا آج پاکستانی فتح کو ائیر چیف مارشل ظہیر احمد بابر کا کارنامہ سمجھتی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں یہ صرف اور صرف حافظ صاحب مرحوم کی دعائوں اور التجائوں کا نتیجہ ہے‘ یہ ان کی برکات ہیں‘ ائیرچیف بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں‘ یہ مانتے ہیں جب محاذ تپ گیا تھا تو میں نے بھائی سے کہا تھا’’آپ باباجی سرکار کے مزار پر جائیں‘ میرا سلام کہیں اور ان سے عرض کریں‘ آپ کے بیٹے اور آپ کے ملک کو آپ کی مدد چاہیے’’میرے بابا جی سرکار میرے پیچھے کھڑے ہو گئے اور یوں ہم سرفراز ہو گئے‘‘۔