اسلام آباد (نیوز ڈیسک) اصغر خان کیس میں وزیراعظم نواز شریف کو پہلے ہی کسی اور نے نہیں بلکہ خود مدعی یونس حبیب نے کلیئر قرار دے دیا ہے، مدعی نے 2013ءمیں ایف آئی اے کو تحریری بیان میں بتایا تھا کہ اس نے میاں نواز شریف یا ان کے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف کو کوئی رقم نہیں دی تھی۔ بدھ کو وزیر داخلہ نے کہا کہ وزیراعظم نے پہلے ہی اصغر خان کیس کی تحقیقات کرنے والی ایف آئی اے ٹیم کے روبرو اپنا بیان ریکارڈ کرا دیا ہے۔جنگ رپورٹر انصار عباسی کے مطابق مدعی کی جانب سے اپنے بیان سے پیچھے ہٹنے کے بعد توقع ہے کہ وزیراعظم نے بھی اس طرح کے متنازع معاملے میں اپنے ملوث ہونے سے انکار کیا ہوگا۔ دسمبر 2013ء میں قومی اخبار سے بات چیت کرتے ہوئے مہران گیٹ اسکینڈل کے مرکزی کردار اور مہران بینک کے سابق صدر یونس حبیب نے کہا تھا کہ جب انہوں نے اپنی ڈائری میں شریف برادران کے حوالے سے بیان کو دوبارہ چیک کیا تو معلو ہوا کہ انہوں نے جاتی عمرا کے شریف برادران کو کوئی رقم نہیں دی بلکہ یہ رقم اپنے ایک دوست کو دی جو جہلم میں ایک بڑا ریستوراں چلا رہا ہے۔ الزامات لگا کر واپس لینے والی شخصیت بن چکے یونس حبیب نے اصغر خان کیس میں دوران سماعت کہا تھا کہ انہوں نے آصف جمشید نامی شخص کے ذریعے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو پینتیس لاکھ روپے دیئے تھے اور شہباز شریف کو پچیس لاکھ روپے دیئے تھے۔ لیکن 2013ء میں جب ایف آئی اے نے ماضی کے اس جرم کی تفتیش شروع کی تو یونس حبیب نے موجودہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کو اس الزام سے کلیئر کردیا جو وہ ماضی میں عائد کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ ”یہ صرف غلط فہمی تھی“۔ انہوں نے کہا تھا کہ جب انہوں نے اپنی ڈائری چیک کی تو معلوم ہوا کہ نواز شریف اور شہباز شریف کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ رقم میں نے اپنے ایک دوست شریف کو دی تھی جو جہلم میں ٹیولپ ریستوراں چلا رہا ہے۔ اس نمائندے نے یونس حبیب سے اس لیے رابطہ کیا تھا کہ اس اطلاع کی تصدیق کی جا سکے کہ آیا ایف آئی اے نے ان سے تفتیش کے سلسلے میں رابطہ کیا ہے۔ یونس حبیب نے کہا کہ اب تک ایف آئی اے نے ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ تاہم، ذرائع کے مطابق، بعد میں انہوں نے ایف آئی اے کو دیئے گئے تحریری بیان میں وزیراعظم کو کلیئر قرار دیدیا تھا۔ یونس حبیب نے 2012 میں سپریم کورٹ سے کہا تھا کہ سابق صدر غلام اسحاق خان اور سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ نے ان پر دباﺅ ڈالا کہ 1990 کے عام انتخابات سے قبل قومی مفاد کے نام پر سیاست دانوں کیلئے 40 کروڑ روپے کا بندوبست کیا جائے۔ عدالت میں اپنے پہلے انکشاف کے طور پر پیش ہوتے ہوئے، علیل اور وہیل چیئر پر آنے والے یونس حبیب نے غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔ یونس حبیب نے اپنا بیان تحریری طور پر جمع کراتے ہوئے کہا تھا کہ ”میں قومی مفاد کا متاثر ہوں اور جو کچھ میں بھی نے صدر پاکستان کے کہنے پر کیا اس کے لیے معافی مانگتا ہوں۔ میں اب خود کو اس عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتا ہوں۔“ عدالت کی ہدایت پر یونس حبیب نے تین صفحات پر مشتمل ایک بیان پڑھا تھا جس میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے ایک سینئر فوجی عہدیدار کے گھر پر مرزا اسلم بیگ سے ملاقات کی تھی اور اس کے بعد ان کے اور مرزا کے درمیان اکثر بات چیت ہوتی رہتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ بعد ازاں مارچ 1990 میں مرزا اسلم بیگ نے بتایا کہ صدر غلام اسحاق خان مجھ سے بات کرنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ میں عام انتخابات کے لیے 400? ملین روپے کا بندوبست کروں۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ چند ماہ بعد، مرزا اسلم بیگ نے مجھے کراچی میں ہونے والی ایک تقریب میں دعوت دی جہاں میرے ساتھ مہمانِ خصوصی جیسا برتاﺅ کیا گیا۔ یونس حبیب نے عدالت کو ایک تصویر بھی پیش کی جس میں انہیں صدر پاکستان اور فوجی افسران بشمول مرزا اسلم بیگ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ یونس حبیب نے عدالت کو یہ بھی بتایا تھا کہ اسلم بیگ نے 340? سے 400? ملین روپے کا مطالبہ کیا تھا۔ یونس حبیب نے کہا کہ 400 ملین روپے سیاست دانوں میں تقسیم کیے گئے جبکہ ایک ارب روپے سرمایہ کاری کی مد میں مختلف لوگوں پر خرچ کیے گئے۔ یونس حبیب نے کہا کہ نیشنلائزڈ بینک کے سربراہ کی حیثیت سے ان کے پاس اور کوئی آپشن نہیں تھا سوائے اس کے کہ وہ صدر مملکت کے احکامات کی تعمیل کریں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان پر روئیداد خان نے اور اٹارنی جنرل نے بھی دباﺅ ڈالا تھا کہ زرداری کے خلاف 1990 میں مقدمہ درج کرائیں