اسلام آباد(این این آئی)حکومت نے ٹیکس پالیسی اور آپریشنز کے شعبے الگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ وفاقی وزیرخزانہ محمداورنگزیب نے کہاہے کہ اگلے چھ ماہ میں ٹیکس پالیسی کو ایف بی آر سے الگ کر کے پالیسی یونٹ قائم کر دیا جائے گا۔تفصیلات کے مطابق وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال کے ہمراہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ کے اجلاس میں ٹیکس ترمیمی بل 2024 کے بارے میں بریفنگ دی۔محمد اورنگزیب نے اس موقع پر کہاکہ ٹیکس پالیسی کیلیے ماہرین و نجی شعبے کی خدمات لی جائیں گی، ٹیکس پالیسی کو ایف بی آر سے آئندہ 6ماہ کے دوران نکال دیا جائے گا ۔
انہوں نے کہا کہ اگر ترامیم اب نہیں لائی گئیں تو انفورسمنٹ کیلیے اقدامات آئندہ بجٹ میں متعارف کرائے جائیں گے، تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بہت زیادہ ہے اگر ان کا ٹیکس کم کرنا ہے تو تمام سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ آئندہ 3 برسوں میں ٹیکس تناسب جی ڈی پی کا 14 فیصد تک بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال نے اپنی بریفنگ میں بتایا کہ ملک بھر میں 62ہزار رجسٹرڈ کمپنیوں میں سے صرف 42ہزار کمپنیاں سیلز ٹیکس جمع کراتی ہیں، ایکٹیو ٹیکس گزار نہ ہونے کی صورت میں کاروبار کو سیل کیا جائے گا، منقولہ جائیداد قبضے میں لی جائیں گی اور وصول کنندہ کا تقرر کیا جائے گا۔انہوںنے کہاکہ کمپنیوں اور انفرادی سطح پر انکم ڈیکلیئریشن اور اخراجات میں فرق بہت زیادہ ہے، ٹیکس نیٹ سے باہر قابل ٹیکس آمدن افراد کیلیے پراپرٹی، بینک اکانٹس اور بزنس سیل کیا جا سکے گا۔
ترامیم سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس اور دیگر ٹیکس آڈٹ کیلیے 1600آڈیٹر ہائر کیے جائیں گے۔راشد لنگڑیال نے کہا کہ ایف بی آر کے پاس اس وقت صرف 300آڈیٹرز ہیں جن کی کارکردگی ناقص ہے، نئی تجاویز کے باعث ترامیم سے 95فیصد لوگ متاثر نہیں ہوں گے، ٹیکس لا ترمیمی بل سے ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح 5 برسوں میں 18 فیصد تک لے جانے کا ہدف ہے، چیئرمین ایف بی آرنے کہاکہ جی ڈی پی کا 18فیصد ٹیکس اکٹھا کرنے کیلئے صوبوں کو 3فیصد ٹیکس جمع کر کے وفاق کو دینا ہو گا، صوبے صرف 0.8فیصد اور پٹرولیم لیوی سے ایف بی آر کو 1فیصد جی ڈی پی کی شرح کا ٹیکس ملتا ہے، سیلز ٹیکس میں 3ہزار ارب روپے اور انکم ٹیکس میں 2ہزار ارب روپے کا گیپ ہے۔راشد لنگڑیال نے اپنی بریفنگ میں کہا کہ ٹیکس گزار سمجھتا ہے ٹیکس کا پیسہ ارکان پارلیمنٹ، ججز کی تنخواہیں بڑھانے کیلیے استعمال ہوتا ہے یہاں تو سینیٹرز کی تنخواہیں ہی اتنی کم ہیں کہ گزارہ بھی مشکل ہے۔