ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا رو رہے تھے‘ ہمارے باس ظالم اور کنجوس تھے‘ وہ صرف اپنے بارے میں سوچتے تھے‘ ہم اپنی اپنی بیوی سے بھی تنگ تھے‘ ہمیں ہمارے ملازمین نے زچ کیا ہوا تھا‘ پورے ملک کے نکمے ہمارے دفتروں میں جمع ہو گئے تھے‘ ہم میں سے آدھے بیمار تھے‘ کسی کو شوگر تھی‘ کسی کو بلڈ پریشر اور باقی سب کو دل‘دماغ اور مثانے کے ایشوز تھے اور ہم سب دوستوں‘ احباب اور رشتے داروں کے ڈسے ہوئے بھی تھے‘کوئی اپنے سالے کی بے ایمانیاں سنا سنا کر بور کر رہا تھا اور کوئی اپنے بہنوئی کا سیاپا کر رہا تھا لیکن مولوی خاموش بیٹھ کر سب کی سن رہا تھا‘ ہم اسے تیس سال سے مولوی کہتے آ رہے ہیں‘ اس کا جوانی میں مذہب کی طرف رجحان ہو گیا تھا لہٰذا ہم نے اسے مولوی کہنا شروع کر دیا تھا‘ اس نے نہ صرف یہ ٹائٹل قبول کر لیا بلکہ یہ خود بھی خود کو مولوی ظہیر الدین کہنے لگا‘
وہ محفل میں خاموشی سے سب کی باتیں سن رہا تھا اور ہنس رہا تھا‘ میں نے محسوس کیا مولوی ہم سب کو انجوائے کر رہا ہے چناں چہ میں نے پوچھا ’’کیا تمہاری زندگی میں کوئی مسئلہ نہیں؟‘‘ اس نے ہنس کر انکار میں سر ہلایا اور پھر پوری طاقت کے ساتھ کہا ’’بالکل نہیں‘ الحمد للہ میں شان دار زندگی گزار رہا ہوں‘ دور دور تک کوئی ایشو نہیں‘‘ یہ سن کر کونے میں بیٹھے ظفر نے اونچی آواز میں گرہ لگائی ’’مولوی جھوٹ بول رہا ہے‘ پچھلے ہفتے اس کے بیٹے کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی‘ یہ چھ ماہ سے بے روزگار بھی ہے اور اس کی بیگم بھی پندرہ دن سے ہسپتال میں پڑی ہے‘ ہم نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا مگر وہ بدستور مسکرا رہا تھا‘ میں نے اس سے پوچھا ’’کیاان سب مسئلوں کے باوجود تم سمجھتے ہو تمہاری زندگی میں کوئی ایشو نہیں‘‘ اس نے فوراً جواب دیا ’’ بالکل‘ یہ معمولی مسائل ہیں اور یہ زندگی کا حصہ ہیں‘ ہم جب تک حیات ہیں‘ اس نوعیت کے مسئلے رہیں گے‘ دوسرا یہ تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں‘ بیٹے کی ٹانگ ٹوٹ گئی لیکن یہ جلد یا بدیر ٹھیک ہو جائے گی‘ میں تیسری مرتبہ بے روزگار ہوا ہوں‘ پچھلی دو بے روزگاریوں کے بعد مجھے زیادہ اچھی نوکری ملی تھی‘ اللہ تعالیٰ اس بار بھی کرم کرے گا‘
بیگم بیمار ہیں‘ یہ ہسپتال میں بھی ہیں لیکن وہاں وہ اکیلی نہیں ہیں‘ وارڈ میں 23 بیمار خواتین ہیں‘ دوسرا دنیا بھر کے ہسپتال مریضوں سے بھرے ہوئے ہیں‘ ان میں ایک میری اہلیہ بھی سہی‘ اللہ کرم کرے گا اور یہ بھی تندرست ہو جائیں گی‘ اللہ نے مجھ پربڑا رحم کیا ہوا ہے‘ مجھے اس نے گھر‘ گاڑی اور اخراجات سے زیادہ پیسے دے رکھے ہیں‘ میں کسی کا محتاج نہیں ہوں‘ تم جیسے دوست بھی موجود ہیں لہٰذا پھر مسئلہ کیا ہے؟ ستے خیراں ‘‘ ہم حیرت سے منہ کھول کر اس کی باتیں سنتے رہے۔ کونے میں بیٹھے ہمارے ایک ڈاکٹر دوست نے اس سے پوچھا ’’کیا تمہیں واقعی زندگی کی بے رحمی‘ لوٹ کھسوٹ‘فریب اور منافقت سے کوئی شکایت نہیں؟‘‘ مولوی نے یہ سن کر لمبی سانس لی اور ہماری طرف دیکھ کر بولا ’’آپ ذرا اس کمرے پر نظر ڈالیں اور یہ بتائیں یہاں پیلا رنگ کہاں کہاں ہیں؟‘‘ میں نے فوراً چڑ کر کہا ’’ہم تم سے سیدھا سوال کر رہے ہیں‘ تم اس کا جواب دو‘‘ مولوی نے سنجیدگی سے میری طرف دیکھ کر کہا ’’میرے سوال میں ہی تمہارا جواب ہے‘ تم بس یہ بتائو پیلا رنگ کہاں کہاں ہے؟‘‘ ہم سب نے کمرے کی طرف دیکھا اور اسے پیلے رنگ کے بارے میں بتانا شروع کر دیا‘
پردوں کے درمیان پیلے رنگ کی پٹی تھی‘ ٹیلی ویژن کی سکرین پر پیلا رنگ نظر آ رہا تھا‘ کمرے کی پینٹنگز میں بھی پیلارنگ تھا‘ تین لوگوں نے پیلی شرٹیں اور پتلونیں پہن رکھی تھیں اور ایک صاحب کے جوتے میں پیلے رنگ کا بکل تھا‘ ہم نے جب اسے پیلے رنگ کی تمام چیزیں گنوا دیںتو اس نے کہا ’’تم جب کمرے میں پیلا رنگ تلاش کر رہے تھے تو یہاں دوسرے رنگ بھی تھے‘ صوفہ سبز رنگ کا تھا‘ کرسیوں پر برائون رنگ کے کشن تھے‘ کارپٹ نیلے رنگ کا تھا اور پردوں میں 90 فیصد سرخ رنگ تھالہٰذا پورے کمرے میں رنگ ہی رنگ تھے لیکن جب آپ پیلا رنگ تلاش کر رہے تھے تو آپ کو کوئی دوسرا رنگ نظر نہیں آیا‘ آپ کو بس پیلا دکھائی دے رہا تھا‘ زندگی بھی ایک کمرہ ہے‘ آپ اس میں جو رنگ دیکھنا چاہتے ہیں آپ کو صرف وہی نظر آتا ہے‘ آپ اگر جرم کا رنگ دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو ہر طرف جرم ہی جرم نظر آئے گا‘ آپ اگر بیماری کا رنگ تلاش کریں گے تو آپ کو ہر طرف مریض دکھائی دیں گے‘ آپ اگر دھوکے‘ فراڈ‘ ظلم‘ زیادتی‘بے روزگاری‘ کساد بازاری‘ ہڑتال‘ مہنگائی اور لاء لیس نیس کے رنگ دیکھنا چاہیں گے تو آپ کو ہر طرف صرف یہ رنگ نظر آئیں گے اور آپ یہ دیکھتے ہوئے یہ بھی بھول جائیں گے ان رنگوں کے ساتھ اللہ کے کرم‘ اللہ کے رحم‘ اللہ کی نعمتوں اور اللہ کی مہربانیوں کے رنگ بھی تھے لیکن آپ کیوں کہ صرف پیلا رنگ تلاش کر رہے تھے تو آپ کو یہ رنگ نظر ہی نہیں آئے‘ آپ کو یہ دکھائی ہی نہیں دیے‘‘ وہ خاموش ہو گیا‘ کمرے میں پن ڈراپ سائلنس تھی‘ ہم سب ایک دوسرے کی طرف دیکھتے تھے اور پھر کمرے میں رچے بسے درجنوں رنگوں کی طرف دیکھتے تھے اور پھر سوچتے تھے مولوی کی بات غلط تو نہیں‘ واقعی کمرے میں درجنوں رنگ ہیں لیکن پیلا رنگ تلاش کرتے ہوئے ہمیں یہ رنگ نظر ہی نہیں آئے۔
میں 24 نومبر کو اپنے بچوں کے ساتھ لان میں بیٹھا تھا‘ نومبر کے آخری ہفتے کی دھوپ ہمیں گدگدا رہی تھی‘ میں کتاب پڑھ رہا تھا اور بچوں کے ساتھ گپ شپ کر رہا تھا‘ میرے بچے ملک کی صورت حال سے پریشان تھے‘ اسلام آباد بند تھا‘ پورے شہر میں کنٹینر لگے تھے‘ کوئی اسلام آباد میں داخل ہو سکتا تھا اور نہ باہر نکل سکتا تھا‘ ہمارے دفتر میں بھی دو دن سے کوئی ورکر نہیں پہنچا تھا‘ بچوں کے سکول اور مارکیٹیں بھی بند تھیں‘ ہم گھروں تک محدود تھے‘ میرا بیٹا پریشان تھا‘ اس نے اس پریشانی میں پوچھا ’’ملک کا کیا بنے گا؟‘‘ میں نے مسکرا کر جواب دیا ’’ملک کو کیا ہوا؟ بیٹا ہر چیز موجود ہے‘ سڑکیں بھی ہیں‘ ائیرپورٹس بھی ہیں اور تمام ادارے بھی موجود ہیں لہٰذا پھر ایشو کیا ہے؟‘‘ بیٹے نے کہا ’’میں 14 سال سے کام کر رہا ہوں اور 14 سال ہی سے ملک میں استحکام نہیں آیا‘ کبھی یہ سڑک بند اور کبھی وہ ہڑتال‘ انٹرنیٹ‘ سکول اور راستے فوراً بند کر دیے جاتے ہیں‘ ملازمین دفتر نہیں پہنچ پاتے اور مریض ہسپتال نہیں‘ فوج کی کمی تھی‘ اب وہ بھی پوری ہو جاتی ہے‘ دوسرا مہینہ ہے‘ اب فوج بھی طلب کر لی جاتی ہے اور گولی مارنے کا حکم بھی جاری ہو جاتا ہے‘ دو برسوں میں ہمارا سٹاف آدھا رہ گیا ہے‘
ریونیو بھی نیچے سے نیچے آ رہا ہے اور فرسٹریشن میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے‘ ہمارا کیا مستقبل ہے؟‘‘ وہ خاموش ہوا تو میں نے اس سے کہا ’’بیٹا ہند متھالوجی کے مطابق یہ وقت ’’کل یوگ‘‘ ہے جس میں فساد اور منافقت دونوں انتہا کو چھوئیں گی لہٰذا آپ پاکستان کو چھوڑ دو اور پوری دنیا کو دیکھو‘ آپ کو اس وقت کسی جگہ استحکام‘ امن اور سکون نہیں ملے گا‘ بے شک ہمارے حالات خراب ہیں لیکن ہم کم از کم غزہ یا یوکرائن نہیں ہیں‘ آخر وہاں بھی انسان بستے ہیں اور ان کے ساتھ اس وقت وہاں کیا ہو رہا ہے! ذرا تصور کرو؟‘‘ میں رکا اور اس کے بعد اسے پیلے رنگ کی پوری داستان سنائی اور اس کے بعد کہا ’’بیٹا جی آپ تھوڑی دیر کے لیے دھرنوں‘ لانگ مارچ‘ رینجرز اور شہر میں گشت کرتے ہوئے فوجی دستوں کے رنگ دیکھنا بند کرو اور یہ دیکھو ہم لان میں اکٹھے بیٹھے ہیں‘ میٹھی اور نرم دھوپ ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں اکٹھا وقت گزارنے کا کتنا شان دار موقع دیا ہے‘ ہمیں کہیں نہیں جانا‘ ہم چھوٹے بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں‘ ایک دوسرے کے ساتھ گپیں لگا رہے ہیں‘ کتابیں پڑھ رہے ہیں اور انٹرنیٹ اور موبائل فون کی لعنت سے بھی محفوظ ہیں‘ ہمیں اور کیا چاہیے؟ میں نے بچپن میں ایک حدیث پڑھی تھی انسان کی زندگی کابہترین وقت ایک بیماری کے بعد دوسری بیماری اور ایک مصروفیت کے بعد دوسری مصروفیت کے درمیان کا وقفہ ہوتا ہے‘ انسان کو اس سے لطف لینا چاہیے‘ ہم اس وقت دو مصروفیات کے درمیانے وقفے میں سانس لے رہے ہیں‘ ہمیں اس کا شکر ادا کرنا چاہیے اور فیملی لائف کو انجوائے کرنا چاہیے‘
کل کیا ہو گا ہم نہیں جانتے‘‘ میرے بیٹے نے میرے ساتھ اتفاق نہیں کیا‘ زیادہ تر لوگ نہیں کرتے‘ کیوں؟ کیوں کہ ہم میں سے 90 فیصد لوگ نعمتوں کے رنگ چھوڑ کر مصیبتوں کے رنگ تلاش کرتے ہیں‘یہ ان پر فوکس کرتے ہیں چناں چہ انہیں مصیبتوں کے رنگوں کے ساتھ موجود نعمتوں کے رنگ نظرنہیں آتے‘ یہ بے چارے یہ دیکھ ہی نہیں پاتے یہ اپنی آنکھوں سے دیکھ‘ کانوں سے سن‘ ہاتھوں سے پکڑ اور قدموں سے چل رہے ہیں‘ یہ جو کھانا چاہتے ہیں کھا لیتے ہیں اور اسے ہضم بھی کر لیتے ہیں‘ ان پر اللہ کا کتنا رحم ہے یہ کسی ہسپتال کے بیڈ پر نہیں پڑے اور یہ ٹیوب سے سانس نہیں لے رہے‘
یہ غزہ اور یوکرائن میں نہیں ہیں یا شمالی اور جنوبی قطب پر برف کے کسی تودے کے نیچے نہیں پھنسے ہوئے‘ آخر تودوں کے نیچے پھنسے اور یوکرائن اور غزہ کی تباہ حال عمارتوں میں درد کی دو گولیوں کا انتظار کرنے والے لوگ بھی ان جیسے انسان ہیں‘ اِن میں اور اُن میںصرف اتنا فرق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مہلت دے رکھی ہے‘ یہ ابھی اِن پر مہربان ہے لیکن انہیں اللہ تعالیٰ کی اس مہربانی کا رنگ نظر نہیں آتا‘یہ بس اس کی قدرت میں چھپا ہوا پیلا رنگ دیکھ رہے ہیں‘یہ اپنے سکھ کو بھی دکھ کی طرح گزار رہے ہیں‘ کاش یہ لوگ یہ جان لیں دنیا میں پیلے رنگ کے علاوہ بھی رنگ ہیں‘ ہم بس وہ رنگ دیکھ نہیں پا رہے۔