منگل‬‮ ، 22 اپریل‬‮ 2025 

پاکستان کاربن کریڈٹ برآمدات سے سالانہ ایک ارب ڈالر کماسکتا ہے، ماہرین

datetime 18  ستمبر‬‮  2024
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی(این این آئی)موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق قانون سازی کے باعث رضاکارانہ کاربن کریڈٹ مارکیٹ تیزی سے ابھر رہی ہے، پاکستان کاربن کریڈٹ کی برآمدات کرکے سالانہ ایک ارب ڈالر کی آمدنی حاصل کرسکتا ہے.یہ بات کلائمٹ ایکشن سینٹر میںمیڈیاکو ایک خصوصی بریفنگ میں بتائی گئی۔ اس موقع پر کلائمٹ ایکشن سینٹر کے ڈائریکٹر یاسر، مجتبیٰ بیگ اور ماحولیات کی کنسلٹنٹ زویا تنیو نے بریفنگ دی۔

ماہرین ماحولیات نے بتایا کہ دنیا کی ماحولیاتی آلودگی میں اگرچہ پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن ماحولیاتی تبدیلی کے سبب پاکستان کو سالانہ 4ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہورہا ہے۔درجہ حرارت بڑھنے سے ماحول میں ناصرف زیریلی گیسز کی مقدار بڑھ جاتی ہے بلکہ اس سے گندم کپاس کی فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے جبکہ ایک انسان کے کام کرنے کی صلاحیت گھٹنے کے ساتھ عوام کی صحت کا بل بھی بڑھ جاتا ہے۔ماہرین نے کہاکہ باغبانی اور زراعت کے ذریعے اگر ایک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کو فضا سے جذب کرلیا جائے تو یہ ایک کاربن کریڈٹ ہوگا۔

پاکستان سے ایک کاربن کریڈٹ 10 سے 15ڈالر میں عالمی منڈی میں فروخت ہوسکتا ہے۔ماہرین نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ کاربن کریڈٹ کی رضاکارانہ مارکیٹ کا حجم 950 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے جس میں تسلسل سے اضافہ ہورہا ہے۔ کاربن کریڈٹ کے لئے کنسلٹنٹ رپورٹ اور اس کی تھرڈ پارٹی کی تصدیق بنیادی ضرورت ہے۔ماہرین نے کہاکہ فیکٹریوں گاڑی دھوئیں اور Un Treated پانی کی سمندر میں نکاسی سے گرین گیسز کی بڑی مقدار فضا یا آب وہوا کو زہریلا ہورہا ہے۔ پاکستان بھی فرانس پوسٹ انڈسٹریلسٹ نیٹ ٹمپریچر معاہدے کا سگنیٹری ہے جسکے تحت ہمیں اپنے درجہ حرارت کو نیٹ انکریز کو 1.5فیصد پر روکنا ہے لیکن اسکے برعکس صرف کراچی میں گزشتہ 10سال سے نیٹ انکریز کی شرح 2فیصد ہے۔

پیرس معاہدے کے تحت آلودگی کی شرح میں کمی ضروری ہے۔کلائمٹ ایکشن سینٹر کے مطابق کاربن کریڈٹ کی عالمی مارکیٹ 50ارب ڈالر ہے لیکن اسکے برعکس او سی سی آئی نے یہ تخمینہ لگایا ہے کہ دنیا میں کاربن کریڈٹ کی مارکیٹ 500ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ذرائع کے مطابق بیرونی خریداروں کے مطالبے پر پاکستان میں ٹیکسٹائل سیکٹر کی برآمدی صنعتوں نے اپنے مصنوعات کی مینوفیکچرنگ میں آلودگی کی رپورٹنگ شروع کردی ہے۔ ذرائع نے بتایاکہ اگر پاکستانی مصنوعات کے برآمدکنندگان کی جانب سے رضاکارانہ طور پر آلودگی کی رپورٹنگ نہ کی گئی تو سال 2028 کے بعد عالمی مارکیٹوں میں انکی مصنوعات کی برآمدات خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔



کالم



Rich Dad — Poor Dad


وہ پانچ بہن بھائی تھے‘ تین بھائی اور دو بہنیں‘…

ڈیتھ بیڈ

ٹام کی زندگی شان دار تھی‘ اللہ تعالیٰ نے اس کی…

اگر آپ بچیں گے تو

جیک برگ مین امریکی ریاست مشی گن سے تعلق رکھتے…

81فیصد

یہ دو تین سال پہلے کی بات ہے‘ میرے موبائل فون…

معافی اور توبہ

’’ اچھا تم بتائو اللہ تعالیٰ نے انسان کو سب سے…

یوٹیوبرز کے ہاتھوں یرغمالی پارٹی

عمران خان اور ریاست کے درمیان دوریاں ختم کرنے…

بل فائیٹنگ

مجھے ایک بار سپین میں بل فائٹنگ دیکھنے کا اتفاق…

زلزلے کیوں آتے ہیں

جولیان مینٹل امریکا کا فائیو سٹار وکیل تھا‘…

چانس

آپ مورگن فری مین کی کہانی بھی سنیے‘ یہ ہالی ووڈ…

جنرل عاصم منیر کی ہارڈ سٹیٹ

میں جوں ہی سڑک کی دوسری سائیڈ پر پہنچا‘ مجھے…

فنگر پرنٹس کی کہانی۔۔ محسن نقوی کے لیے

میرے والد انتقال سے قبل اپنے گائوں میں 17 کنال…