لاہور ( این این آئی) پنجاب کا مالی سال 2024-25کا 5446ارب روپے کا بجٹ کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا ،70سال پرانے ٹیکس ریٹ بھی اپ گریڈ کر دیئے گئے،صوبائی محصولات سمیت دیگربجٹ دستاویزات یکم جولائی 2024سے نافذ العمل ہوں گی۔پنجاب اسمبلی کے ایوان سے منظورفنانس بل کے مطابق یکم جولائی سے 5ملین تک رہائشی پراپرٹی ٹیکس فری ہوگی جبکہ کمرشل پراپرٹی پرکل رقم کا 0.07فیصد ٹیکس وصول کیاجائے گا ،اسی طرح 10سے 25ملین تک کی رہائشی اور کمرشل پراپرٹی پر 0.08فیصد جبکہ25ملین سے زائد رقم سے خریدی گئی پراپرٹی پر 0.09فیصد ٹیکس لگایاگیاہے ،موٹرسائیکل /سکوٹر کی رجسٹریشن فیس 1500روپے رکھی گئی ،10سال کے اندر موٹرسائیکل /سکوٹر رجسٹریشن ٹرانسفر کی فیس 10فیصد سالانہ کے حساب سے اضافی وصول کی جائے گئی ،ایک ہزارسی سی تک گاڑی کی رجسٹریشن 20ہزار روپے اور 10سال کے اندر ایک ہزارسی سی تک گاڑی کی رجسٹریشن ٹرانسفر کی فیس 10فیصد سالانہ کے حساب سے اضافی وصول کی جائے گی ،اسی طرح ایک ہزار سے دوہزار سی سی تک گاڑی کی رجسٹریشن قیمت خرید پر0.02فیصد اوردوہزار سی سی سے بڑی گاڑیوں کی رجسٹریشن قیمت خرید پر0.03فیصد کے حساب سے لاگو ہوگی ۔سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان کی زیر صدارت اجلاس دو گھنٹے دس منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا ۔
وزیرخزانہ میاں مجتبیٰ شجاع الرحمن نے فنانس بل ایوان میں منظوری کے لئے پیش کیا جسے کثرت رائے منظور کرلیا گیا،اس بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس تو نہیں لگایا تاہم پرانے ٹیکسز کو ری شیڈول ضرور کیا گیا ہے جس سے پنجاب کو ریونیو کی مد میں، این ایف سی ایوارڈ کے تحت 3,683ارب 10کروڑ ملیں گے اورصوبائی محصولات کی مد میں گذزشتہ سال سے 54فیصد اضافے کے ساتھ 960ارب 30کروڑ روپے ملنے کا تخمینہ ہے،جس میں پنجاب ریونیو اتھارٹی سے 25 فیصد اضافے کے ساتھ 300ارب روپے،بورڈ آف ریونیو سے6فیصد اضافے کے ساتھ 105ارب روپے اورمحکمہ ایکسائز سے25فیصد اضافے کے ساتھ 57 ارب روپے کے محصولات کی وصولی متوقع ہے ، بجٹ کے مطابق مالی سال 2024-25کیلئے بجٹ کا مجموعی حجم 5,446ارب روپے ہے، کل آمدن کا تخمینہ 4,643ارب40کروڑلگایاگیاہے۔قبل ازیںپنجاب اسمبلی کے ارکان کی تنخواہوں اور الائونسز میں اضافے کے معاملہ پر اپوزیشن رکن رانا آفتاب نے نقطہ اعتراض پر کہا کہ حکومت ارکان اسمبلی کی تنخواہیں اور الائونسزز کس طرح بڑھا سکتی ہے۔
اسمبلی کے تمام معاملات سپیکر نے طے کرنا ہوتے ہیں،سپیکر کے دفتر کا کام حکومت سے پیسے لینا ہے۔ سپیکر تنخواہ بڑھائے نہ بڑھائے یہ اسکا اختیار ہے۔ہمیں حکومت کے رحم و کرم پر مت چھوڑاجائے۔ جس پر سپیکر ملک احمد خان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن رکن کی جانب سے اٹھایا جانے والا سوال مناسب ہے۔ اس سوال کے جواب کے حوالے سے قانون کیا کہتا ہے یہ جاننا پڑے گا۔ اس نقطے کو دیکھنا پڑے گا اور تفصیلات دیکھنا ہو گی ۔حکومتی رکن سمیع اللہ خان کا کہنا تھا کہ ا س معاملے پر اپوزیشن رکن کا سوال درست ہے۔ اگر ہمیں عوامی نمائندہ مانا جاتا ہے تو بات درست ہے ،اگر ہمیں عوامی نمائندہ نہیں ماننا اور حکومت کا حصہ سمجھا جاتا ہے تو طے کرنا ہوگا کہ ہمارا گریڈ کونسا ہوگا۔ ہماری تنخواہوں کا فیصلہ اس ہائوس کو کرنا چاہیے ،اگر کوئی آفت آگئی ہے تو ہماری تنخواہ کم کر دینی چاہیے ،اگر مہنگائی کے تناسب سے دیکھیں تو ہماری تنخواہوں کو بڑھنا چاہیے ۔رانا آفتاب کا کہنا تھا کہ سپیکر کی جانب سے یہ بات درست کی گئی کہ عدلیہ کی طرح مقننہ بھی آزاد ہونی چاہیے ۔ اپوزیشن رکن احمر رشید بھٹی نے کہا کہ جس طرح عدلیہ اپنی تنخواہوں اور الائونسز کا خود تعین کرتی ہے پارلیمان کو بھی اپنا اختیار اپنے پاس لینا ہوگا ۔
حکومتی رکن راجہ شوکت بھٹی نے کہا کہ ہماری تنخواہوں اور الائونسز کے معاملے پر جو بلیو بک کے مطابق بنتی ہے وہ ملنی چاہیے ۔ سپیکر پنجاب اسمبلی نے اراکین اسمبلی کی تنخواہوں،الائونسز میں اضافے کی اٹھارٹی کے تعین کو لے کر رولنگ محفوظ کر لی۔نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے چیف وہیپ سنی اتحاد کونسل رانا شہباز نے کہا کہ وزیر خزانہ اور وزیر صنعت کپاس اور چاول کے کاشتکاروں کے ساتھ بیٹھ کر مسائل حل کریں ،جس پر سپیکر کا کہنا تھا کہ وزیر خزانہ اور وزیر صنعت کو کہوں گا کہ اگر فیکٹریوں کی جانب سے ہڑتال کی جارہی ہے تو ان سے بات کریں۔اسی طرح اپوزیشن رکن راشد طفیل کا کہنا تھا کہ قصور میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اپوزیشن رکن حمد ثنا کا کہنا تھا کہ میرے حلقے میں بھی نوعمر بچی کی نعش برآمد ہوئی ۔جواب میں سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان کا کہنا تھا کہ وزیر برائے پارلیمانی امور بچوں کے ساتھ ہونے والے جنسی جرائم کے واقعات پر فوری تحقیقات کروائیں ۔
اجلاس کے دوران رکن اسمبلی ندیم قریشی نے بجلی کے بلوں میں اضافے کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی صارف 200یونٹ بل استعمال کرتا ہے تو وہ بل 3000روپے دیتا ہے، 201یونٹ استعمال کرنے پر بل 8500روپے ہو جاتا ہے۔ندیم قریشی نے مطالبہ کیا کہ پنجاب اسمبلی سے بجلی کے بلوں میں اضافے کی قرارداد وفاقی حکومت کو پیش کی جانی چاہیے، سپیکر پنجاب اسمبلی نے اپوزیشن رکن کو قرارداد کی شکل میں مطالبہ سامنے لانے کی ہدایت کردی۔ایجنڈا مکمل ہونے پر سپیکر نے اجلاس آج ( جمعرات ) 27جون کی دوپہر دو بجے تک ملتوی کردیا۔