کراچی (نیوزڈیسک)انسانی حقوق کے رہنما ﺅں نے کہا ہے کہ ملک میں مارشل لاءکسی سے پوچھ کر نہیں آئے گا اور اگر آئےگا تو جائیگا بھی، عوام نے حکمرانوں کو جنگلا بس سروس چلانے کے لیے ایوان میں نہیں بھیجا ،حکمران اپنے ذہن کو جنگلے سے آزاد کرائیں۔ عوام کو معلوم ہونا چاہئے کہ حکومت نے اپنے کیے ہوئے دعوﺅں میں سے کن کو پورا کیا ہے اور ہیومن رائٹس کونسل کی 167میں سے کتنی تجاویز پر عمل کیا ہے ۔ان خیالات کا اظہار ہفتے کو کراچی پریس کلب میں انسانی حقوق کی رہنما ایڈوکیٹ عاصمہ جہانگیر ،پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی چیئر پرسن زہرا یوسف، جنرل سیکرٹری آئی اے رحمن اور غازی صلاح الدین نے سو ل سوسائٹی مڈ ٹر م ایسیس منٹ رپورٹ کے اجراءکے موقع پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ملک میں مارشل لاءکسی سے پوچھ کر نہیں آئے گا اور اگر آئےگا تو جائیگا بھی، عوام نے حکمرانوں کو جنگلا بس سروس چلانے کے لیے نہیں ایوان میں نہیں بھیجا ،اس سے ملک و قوم کی ترقی نہیں ہوتی ،حکمران اپنے ذہن کو جنگلے سے آزاد کرائیں اور اگر کوئی عوام میں مقبول ہے تو وہ طاقت کے زور پر نہیں بلکہ عوام سے ووٹ لے کر اقتدار میں آئے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم سے سو اختلافات ہیں لیکن آزادی اظہار رائے کے لیے الطاف حسین کا مقدمہ لڑ رہی ہوں، انکے کیس پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گی۔انھوں نے کہا کہ احتساب سب کو ہونا چاہیے ہم اسکے خلاف نہیں ہیں لیکن احتساب کو کسی کے لیے سیاسی انتقام کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے ۔ان کا کہنا تھا کہ ہم تشدد سے نجات کی بات کرتے ہیں لیکن دوسری طرف تشد د کرتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ اس پر کوئی بات نہ کرے، یہ دوہرا معیار ہے ۔ملک کی بد قسمتی رہی ہے کہ عسکری قیادت زیادہ عرصے اقتدار پر مسلط رہی لیکن سیاستدانوں کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے سے تو انھیں کسی نے نہیں روکا،ملک میں جمہوریت کے لیے قوم نے بہت قربانیاں دی ہیں ۔انھوں نے مزید کہاکہ یہ بات کسی سے نہیں چھپی ہوئی کہ آئے روز پیمرا کی میڈیا کے لیے نئی ایڈوائز کیوں آرہی ہے ،معاشرے میں عسکری رجحانات کبھی بھی صحت مند نہیں ہوتے ،ملک میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والا امتیازی سلوک سب کے سامنے ہے ،پہلے مذہب کو استعمال کیا جاتا تھا اب قوم پرستی کے نام پر ہورہا ہے ۔اس موقع پر ایچ آر سی پی کی چیئر پرسن زہرا یوسف نے کہا کہ ملک میں شخصی آزادی ایک بار پھر پیچھے کی طرف جاری ہے ،میڈیا کو جاری ہونےو الی ایڈوائزاور خبروں سے ظاہر ہورہا ہے کہ کس طرح عوام کے مسائل کو نظر انداز کیا جارہا ہے ۔