اسلام آباد (نیوز ڈیسک) مارک سہگل واحد امریکی صحافی نہیں ہیں جنہوں نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے دھمکی آمیز فون کے بعد بے نظیر بھٹو کی سلامتی کو لاحق خطرات کا انکشاف کیا ہو۔ پلٹزر انعام یافتہ امریکی صحافی رون سوسکینڈ نے 2008 ءمیں شائع ہونے والی اپنی کتاب میں مشرف کی بے نظیر کو براہ راست دھمکی کا ذکر کیا تھا جس میں مشرف کا کہنا تھا ”آپ کو بعض چیزیں سمجھ لینی چاہئیں“ آپ کی سیکورٹی کا انحصار ہمارے تعلقات کی نوعیت پر ہے“۔ رون سوسکینڈ نے اپنی کتاب ”دی وے آف دی ورلڈ، اے اسٹوری آف ٹروتھ اینڈ ہوپ ان این ایج آف ایکسٹر یم ازم“ میں انکشاف کیا تھا کہ امریکی انٹلی جنس ایجنسیوں نے بے نظیر بھٹو کی پاکستان آمد سے قبل (اکتوبر 2007 میں) ان کے ٹیلیفون ٹیپ کئے تھے، کتاب کے صحفہ 293 پر مصنف لکھتا ہے ”خفیہ طور پر سنی گئی کالز میں انہوں نے ان کا انداز اور یہ حقیقت نظرانداز کر دی کہ وہ خوف زدہ تھیں اور اپنی ممکنہ موت کی تیاری کر رہی تھیں“۔ کتاب انکشافات سے پر ہے، امریکی ایجنسیوں کی جانب سے مشرف۔ بے نظیر بات چیت کی خفیہ ریکارڈنگ کا ذکر ہے،جنگ رپورٹر عامر میر کے مطابق کتاب میں بے نظیر بھٹو کی سینیٹر جان کیری سے ملاقات میں اپنی سیکورٹی کی درخواست کی تفصیلات کا حوالہ ہے جس میں کیری نے جواب دیا ”امریکا کسی ایسے شخص کی حفاظت سے ہچکچاتا ہے جو تقرر شدہ لیڈر نہ ہو“۔ 15 اگست 2008 کو بعدازاں انٹرویو میں بے نظیر کے حوالے سے رون سوسکینڈ نے بتایا ”میرے دو دشمن ہیں جنہوں نے کافی عرصے سے شیطانی اتحاد بنا رکھا ہے، آمرانہ قوتیں اور انتہا پسند، اور مجھے کوئی تحفظ حاصل نہیں ، کیوں؟ ڈک چینی (اس وقت امریکی نائب صدر) فون نہیں کرتے! کیوں؟ مجھے وجہ بتائیں، انہوں نے مجھے یقین دلایا تھا کہ ڈک چینی، پرویز مشرف کو فون کر کے صرف اتنا کہیں ”آپ ڈکٹیٹر ہیں، اس کی حفاظت کو یقینی بنائیں، الیکشن کے دن وہ کام کریں، اگر ان کے ساتھ ایسا نہ ہوا تو ہم آپ کو ذمہ دار قرار دیں گے“۔ کتاب میں بے نظیر بھٹو کو مشرف کی دھمکی کہ ”آپ کی سلامتی کا انحصار ہمارے تعلقات کی نوعیت پر ہے“ پر رون سوسکینڈ لکھتے ہیں کہ یہ بالکل مافیا جیسی دھمکی تھی، 27 دسمبر 2007 کو بے نظیر کے قتل کے ا?ٹھ برس بعد مارک سیگل نے واشنگٹن سے ویڈیو لنک کے ذریے اپنا بیان ریکارڈ کرایا اور عدالت کو بتایا کہ پرویز مشرف نے بے نظیر کو دھمکی دی تھی کہ ان کی سلامتی کا انحصار ہمارے تعلقات پر ہے اور بقول سہگل، مشرف نے یہ دھمکی بھی دی تھی کہ بے نظیر کی سیکورٹی کی ضمانت صرف اس صورت دی جائے گی اگر وہ انتخابات کے بعد پاکستان آتی ہیں“۔ مارک سہگل نے یہ بھی بتایا کہ جب پرویز مشرف کا دھمکی آمیز فون آیا تو آصف زرداری بھی امریکی رکن کانگریس کے دفتر میں موجود تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو کے پاکستانی اسٹبلشمنٹ اور جہادی تنظیموں میں کئی طاقتور دشمن تھے جنہوں نے پہلے انہیں وطن واپسی سے روکا اور ان کی سیاسی واپسی پر انہیں زندگی سے محروم کرنا چاہتے تھے۔درحقیقت اقوام متحدہ انکوائری کمیشن رپورٹ میں بھی بے نظیر بھٹو کے قتل پر ان الفاظ میں وسیع اشارے دیئے گئے ہیں:” بے نظیر بھٹو جنرل پرویز مشرف کے لئے ممکنہ خطرہ بن کر ابھریں“۔ کیونکہ انہوں نے پرویز مشرف کے اقتدار پر گرفت برقرار رکھنے کے منصوبوں کو چیلنج کرنا شروع کردیا تھا۔ جیسا کہ وہ پہلے مہم چلانےپاکستان واپس پہنچیں، تب ممکنہ انتخابی دھاندلیوں پر توجہ دی اور بالاآخر ان کے ساتھ مذاکرات میں ملوث ہونے کے بعد مارشل لاء کے دنوں میں فوجی آمریت کے خلاف براہِ راست مہم چلائی۔ ان ہی خطوط پر جنرل پرویز مشرف کی اتحادی مسلم لیگ(ن) کو بھی بے نظیر بھٹو سے خطرہ لاحق ہوا۔ کیونکہ پیپلز پارٹی کی انتخابات میں کامیابی کی صورت ق لیگ کو بہت کچھ کھونا پڑتا اور پارلیمنٹ میں ان کی اکثریت ختم ہوجاتی۔ قتل سے قبل پاکستان میں اپنی مہم کے دوران بے نظیر بھٹو کو یہ خیال پیدا ہوگیا کہ جنرل پرویز مشرف ہی ان کی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں۔ جیسا کہ بے نظیر بھٹو کا مشاہدہ تھا کہ انہیں ضرورت کے مطابق سیکورٹی فراہم نہیں کی جارہی اور لاحق خطرات اور سابق وزیر اعظم کی حیثیت سے جس کی وہ مستحق تھیں۔ سچ تو یہ ہے کہ 13 نومبر2007کو اپنے قتل سے چند ہفتوں قبل بے نظیر بھٹو نے لاہور میں ایک انٹرویو کے دوران مجھے بتایا تھا کہ کراچی میں خود کش حملہ ( 18 اکتوبر 2007 کو)پرویز مشرف کی منشا کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اپنی گرفتاری سے چند گھنٹو ںقبل جب اسلام آباد میں اپنی حکومت کے خلاف لانگ مارچ روکنے کے لئے مشرف نے انہیں نظر بند کیا، اپنی آف دی ریمارڈ گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ وطن واپسی پر ان کی جان لئے جانے کی کوششوں کا انہیں پہلے ہی سے بخوبی علم تھا اور میں یہ بتادوں کہ کراچی حملہ پرویز مشرف کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ بے نظیر بھٹو نے کہا کہ کراچی خود کش حملے کے بعد اپنی غلطی کا احساس کرتے ہوئے انہوں نے ایک نہایت اہم شخصیت کو ایک اور خط لکھا جس میں اپنے ممکنہ قاتلوں کے نام دیئے گئے۔ جب پوچھا گیا آیا کہ انہوں نے خط میں پرویز مشرف کا نام دیا تھا اور خط کس کے نام تھا۔ بے نظیر نے اس پر مسکراتے ہوئے کہا تھا:” ایک چیز کا خیال رکھیں، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ میں وہ تمام عناصر جو الیکشن کے بعد کے سیٹ اپ میں جنہیں اپنے اختیارات اور اثر و رسوخ کھودینے کا خدشہ ہے وہ ان کے درپے ہیں۔ جن میں جنرل بھی شامل ہے۔ اس مرحلے پر میں آپ کو زیادہ تفصیلات نہیں دے سکتی۔ تاہم اگر میں قتل کردی گئی تو آپ پرویز مشرف کا نام لے سکتے ہیں۔“اب میرے سوالات کرنے کی باری تھی۔”آیا آپ کو پرویز مشرف کے ارادوں اور نیت پر شک ہے؟“ بے نظیر بھٹو نے کہا:” آف دی ریکار، میں کہوں گی کہ مجھے ان کی نیت یا ارادوں پر شبہ نہیں مجھے ان کے ملوث ہونے کا یقین ہے اور میں نے یہ معتبر اطلاعات کی بنیاد پر اخذکیا ہے۔ میں دنگ رہ گیا ، میں نے پھر پوچھا،” اگر یہ سچ ہے تو آپ نے یہ بات عام کیوں نہیں کی۔ انہوں نے کہا” میں اس مرحلے پر مفاہمتی ماحول کی وجہ سے ایسا نہیں کرسکتی۔ جنرل نہیں چاہتا تھا کہ میں انتخابات سے قبل پاکستان واپس آﺅں اور وہ میرے انتخابات سے قبل واپسی پر مشتعل تھا کیونکہ اس سے ان کا گیم پلان بگڑ سکتا تھا۔ بے نظیر بھٹو نے اپنی وطن واپسی سے دو ہفتے قبل تب مجھے بتایا تھا کہ پرویز مشرف نے ایک پیغام بھیجا جس میں کہا گیا کہ پاکستان میں امن و امان کی صورتحال خراب ہے۔ لال مسجد واقعہ کے بعد ان کے جہاد مخالف بیانات سے مذہبی جنونی عناصر شدید اشتعال میں ہیں۔ لہذا بے نظیر نے انہیں پیغام دیا کہ حالات چاہے کچھ بھی ہوں وہ انتخابات میں پارٹی کی قیادت کے لئے پاکستان ضروری واپس آئیں گی۔ جواب میں انہیں وارننگ دی گئی کہ کئی انتہا پسند گروپ اور عناصر انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے مطابق انہوں نے اس پیغام پر جواب دیا کہ اگر ایجنسیوں کو ان کے قتل کے منصوبوں کی پیشگی اطاع ہے تو یقیناً وہ منصوبہ سازوں کو گرفتار کرنے کی بھی پوزیشن میں ہوں گے۔ پرویز مشرف یا ان کی انتظامیہ کی جانب سے اس کا کوئی جواب نہیں ملا۔ اس مرحلے پر میں نے مداخلت کی اور کہا”جہاں تک میں جانتا ہوں پرویز مشرف نے پاکستان میں آپ کے تحفظ کی امریکیوں کو ضمانت دی ہے۔ جواب میں بے نظیر کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی بات نہیں، جنرل نے کسی کو بھی کوئی ضمانت نہیں دی۔ وہ تصور سے بڑھ کر منتقم ہوسکتا ہے۔ حتیٰ اس کہ اس کے علاوہ بھی ایک مقبول سیاست دان کسی فوجی آمر پر بھروسہ نہیں کرسکتا۔ جب ان سے مشرف کی دشمنی کی وجہ پوچھی گئی تو بے نظیر بھٹو نے کہا”میں نے انہیں وردی اتارنے پر تقریباً مجبور کردیا تھا۔(پرویز مشرف کو میری لاہور میں بے نظیر بھٹو سے ملاقات کے تقریباً دو ہفتے بعد 28نومبر2007و ا?رمی چیف کا منصب چھوڑ دینا تھا۔) اب جبکہ واپس آگئی تو جنرل سخت مشکل میں پھنس گئے۔ ان پر صدارت چھوڑنے، وردی اتارنے اور گھر جانے کیلئے شدید دباﺅ تھا اور اسی وجہ سے وہ شدید اشتعال میں تھے۔ میرے پاس مزید سوالات تھے۔”اگر آپ کو اتنا یقین تھا کہ کراچی حملہ پرویز مشرف کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتا تو آپ نے اپنے تحفظ کے لئے کوئی اقدام کیا؟ کبھی آپ نے یہ بات افشا کی؟ بے نظیر کا جواب تھا“ جب وقت آئے گا تو آپ کو بہت کچھ معلوم ہوگا۔ فی الحال جیساکہ میں نے پہلے آپ سے کہا تھا میرے قتل کی صورت میں آپ پرویز مشرف کو نامزد کرسکتے ہیں لیکن جب میں نے ایک اور سوال کیا: خدانہ کرے کبھی ایسا ہو لیکن اگر ایسا ہوا بھی اور میں نے قاتل کی حیثیت سے پرویز مشرف کا نام بھی لیاتو اس سے کیا فرق پڑ ے گا؟میری ذاتی رائے میں آپ کو حقائق کے بارے میں عوام میں جانا چاہئے۔ تاکہ اگر ان کا ایسا کوئی منصوبہ ہو تب بھی وہ مدافعانہ پوزیشن میں آجائیں اور ہوسکتا ہے اپنے منصوبوں پر عمل نہ کرپائیں۔ بے نظیر بھٹو کا جواب تھا: میرے خیال میں میں نے ایسا کیا تو وہ جارحیت پر اتر آئیں گے اور پارٹی قیادت کیلئے مزید مشکلات کھڑی کریں گے۔ خصوصاً آئندہ عام انتخابات میں میری شرکت کے حوالے سے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں کچھ نہیں کروں گی اور انہیں جو جی چاہے کرنے دوں۔ میں نے درست حلقوں میں اہم شخصیات کو پہلے ہی سے اعتماد میں لے لیا ہے۔میں نے تمام تر پیش رفت اور اپنے خدشات سے انہیں آگاہ کردیا ہے تاکہ میرے مخالفین یہ بات سمجھ لیں کہ اگر میں قتل بھی کردی گئی تو انہیں تحقیقات اور تفتیش کا سامنا کرنا ہوگا جیسا کہ اقوام متحدہ نے لبنان کے سابق وزیر اعظم رفیق ہریری کے قتل کی تحقیقات کی تھی۔ یہ ان کے قتل کے طویل عرصہ بعد ہی سمجھ میں آیا کہ ان کا مطلب کیا تھا جب انہوں نے کہا تھا کہ وہ ”درست حلقوں“ سے رابطے میں ہیں۔ انہوں نے کراچی استقبالیہ جلوس میں خود کش حملے کے چند دن بعد ہی مارک سیگل کو ای میل کی۔ مارک سیگل نے یہ ای میل سی این این کے وولف بلٹزر کو بڑھادی جنہوں نے بے نظیر کی شہادت کے بعد اسے عام کردیا۔
انتخابی مہم کے دوران ہی بینظیر کو مشرف سے اپنی سلامتی کا خطرہ ہوگیا تھا
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
-
اپنے خاندان کے قاتلوں سے دردناک انتقام’ خاتون نے ایک ساتھ 40 افراد کو قتل ...
-
ملک بھر میں جاری شدید گرمی کی لہر مزید کتنے دن جاری رہے گی؟ محکمہ ...
-
کوچ سے ٹکرانے کے بعد کار مسافروں سمیت دریا میں بہہ گئی، ویڈیو وائرل
-
پاک بھارت کشیدگی کے دوران عمران خان سے غیرسیاسی شخصیت کی ملاقات اور بریفنگ کا ...
-
”اپنا کماؤ…اپنا کھاؤ”…وزیراعلیٰ نے تاریخ رقم کر دی
-
سونے کی فی تولہ قیمت میں بڑا اضافہ
-
امریکی دفاعی تجزیہ کار کرسٹین فیئر ایک بار پھر پاکستان کے حق میں بول پڑیں
-
کیا فوج مخالف باتیں کرنیوالوں کا احتساب نہیں ہونا چاہئے؟، لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری
-
وزیراعظم کا عمران خان کے دور میں بننے والی ہائوسنگ اتھارٹی ختم کرنے کا فیصلہ
-
پاکستان نے چین، افغانستان اور ایران کے راستے روس تک 6 تجارتی راہداریوں کی نشاندہی ...
-
بھارت نے دریائے چناب کا رخ موڑنے پر کام تیز کردیا
-
بابر اعظم نے اپنی ٹی 20 ورلڈ الیون میں 2 بھارتی کھلاڑی شامل کرلئے
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
-
اپنے خاندان کے قاتلوں سے دردناک انتقام’ خاتون نے ایک ساتھ 40 افراد کو قتل کردیا
-
ملک بھر میں جاری شدید گرمی کی لہر مزید کتنے دن جاری رہے گی؟ محکمہ موسمیات نے پیشگوئی کردی
-
کوچ سے ٹکرانے کے بعد کار مسافروں سمیت دریا میں بہہ گئی، ویڈیو وائرل
-
پاک بھارت کشیدگی کے دوران عمران خان سے غیرسیاسی شخصیت کی ملاقات اور بریفنگ کا انکشاف
-
”اپنا کماؤ…اپنا کھاؤ”…وزیراعلیٰ نے تاریخ رقم کر دی
-
سونے کی فی تولہ قیمت میں بڑا اضافہ
-
امریکی دفاعی تجزیہ کار کرسٹین فیئر ایک بار پھر پاکستان کے حق میں بول پڑیں
-
کیا فوج مخالف باتیں کرنیوالوں کا احتساب نہیں ہونا چاہئے؟، لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری
-
وزیراعظم کا عمران خان کے دور میں بننے والی ہائوسنگ اتھارٹی ختم کرنے کا فیصلہ
-
پاکستان نے چین، افغانستان اور ایران کے راستے روس تک 6 تجارتی راہداریوں کی نشاندہی کردی
-
بھارت نے دریائے چناب کا رخ موڑنے پر کام تیز کردیا
-
بابر اعظم نے اپنی ٹی 20 ورلڈ الیون میں 2 بھارتی کھلاڑی شامل کرلئے
-
پاکستان کے ہاتھوں شکست، بی جے پی رہنما بھارتی عوام کے ردعمل سے خوفزدہ
-
امریکی صدر ٹرمپ کا پاکستانیوں کی ذہانت اوران کے ناقابل یقین حد تک شاندار اشیا تیار کرنے کی صلاحیتوں...