اسلام آباد(نیوز ڈیسک) اقتصادی ماہرین نے 8.25فیصدشرح سودپرفروخت کیے جانیوالے 50 کروڑ ڈالر کے نئے پاک یورو بانڈ کو معیشت کے لیے مہنگا سودا قرار دے دیاہے۔سابق وزیرخزانہ اورسینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین سینیٹرسلیم مانڈوی والا نے کہاہے کہ حکومت کی جانب سے انٹرنیشنل فنانشل مارکیٹ میں مہنگے پاک یورو بانڈ کی فروخت معیشت کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔وفاقی وزیرخزانہ اسحق ڈارنے عیدالاضحی کے روز پاکستانیوں کو ایک اورمہنگے قرضے کاتحفہ دیاجوکسی بھی لحاظ سے قابل تعریف نہیں۔ ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ حکومت نے اس سے پہلے بین الاقوامی فنانشل مارکیٹ میں 2 ارب ڈالر کے یورو بانڈز8 فیصد جبکہ 1ارب ڈالر کے انٹرنیشنل سکوک بانڈز7فیصدشرح سودپرفروخت کیے جواس بات کاثبوت ہیں کہ انہوں نے نئے یورو بانڈ پہلے سے0.25 فیصدزائدشرح سودپرفروخت کیے جو گھاٹے کا سودا ہے۔سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہاکہ حکومت نے بین الاقوامی فنانشل مارکیٹ میں نیا بانڈ 2 سے ڈھائی فیصد مہنگی شرح سود پر فروخت کیا جو حکومت پرعالمی مالیاتی اداروں کے دباو¿کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ امریکا میں اس وقت بینکوں کی شرح سود صفر ہے جبکہ چین کی اسٹاک مارکیٹ بھی کریش ہوچکی ہے ، ان حالات میں 8.25 فیصدشرح سودپربین الاقوامی بانڈز فروخت کرنا سمجھ سے بالاترہے حالانکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر14ارب ڈالرسے بڑھ چکے ہیں۔لہٰذا حکومت پر آئی ایم ایف کا دباو¿بھی نہیں ہو سکتا۔ ایک سوال پر ڈاکٹرحفیظ پاشا کا کہنا تھاکہ سوادوسال میں حکومت نے بانڈزکی شکل میں 8.25فیصدشرح سود پر ساڑھے 3 ارب ڈالرکاکمرشل بیرونی قرضہ لیا ہے جبکہ دوسری جانب جی ڈی پی میں اضافے کی شرح 4 فیصدہے لہٰذا بیرونی قرضے پر شرح سود اوراقتصادی شرح نمو کے مابین سوا4فیصدکافرق پوراکرنے کیلیے حکومت کو مزید قرض لینا پڑے گا، دوسری جانب ہماری برآمدات 7فیصدتک گرگئی ہیں۔ براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری بھی گرچکی ہے اوراب سمندرپار پاکستانیوں کی ترسیلات زربھی گراوٹ کا شکار ہیں لہٰذا حکومت کوسوچ سمجھ کربڑے فیصلے کرنے چاہئیں۔معروف کاروباری شخصیت زبیرموتی والا نے کہا کہ بلاشبہ حکومت نے پاک یوروبانڈزمہنگی شرح سودپرفروخت کیے کیونکہ اس وقت امریکا سمیت دنیابھرمیں شرح سود 8.25 فیصدسے کافی کم ہے تاہم اگر دوسری طرف دیکھا جائے تو پاک یوروبانڈزکی کامیاب نیلامی عالمی سرمایہ کاروں کے پاکستانی معیشت پر اعتماد کا واضح اظہار ہے جو در اصل ہم آئی ایم ایف سمیت عالمی مالیاتی اداروںکودکھانا چاہتے ہیں۔