اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان میں نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریماکس میں کہا ہے کہ لگتا ہے کہ اب آمدن سے زائد اثاثے رکھنا سنجیدہ جرم نہیں رہا۔چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی ۔ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بینچ کا حصہ ہیں۔دورانِ سماعت وفاق کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے حمید الرحمن چوہدری کی کتاب کا حوالہ دیا جس پر چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمارے لیے یہ کیس معلوماتی بھی ہے۔
دلائل جاری رکھتے ہوئے وفاق کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ حمید الرحمن چوہدری مشرقی پاکستان کے سیاستدان تھے جنہوں نے اپنے ٹرائل کی کہانی لکھی، نیب ترامیم کے ماضی کے اطلاق سے متعلق سوال کیا گیا تھا، قانون سازی میں ترمیم سے قانون بدل جانے پر سپریم کورٹ نے ہمیشہ قانون کی حمایت کی، ریاست کے ماضی کے اطلاق سے متعلق بنائے گئے قوانین آرٹیکل 12 کے تحت ہیں، آئینی منشا بالکل واضح ہے، قانون سازی کے ماضی کے اطلاق کی آئین میں کوئی ممانعت نہیں ہے، جسٹس منیب نے ہائی کورٹ میں اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ ماضی سے اطلاق کیے گئے قوانین کالعدم قرار نہیں دیے جا سکتے، کسٹم ایکٹ کے سیکشن 31 کا اطلاق ماضی سے کیا گیا اور سپریم کورٹ نے اس کی توثیق کی۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کا یہ نکتہ سمجھ چکے ہیں، ایمنسٹی اسکیم کو نیب آرڈیننس سے استثنیٰ کیوں دیا گیا ہے؟ عدالت کو اب بے نامی دار سے متعلق نیب ترامیم پر دلائل دیں، بے نامی دار ریفرنسز میں بنیادی کیس آمدن سے زائد اثاثہ جات کا تھا، نیب ترامیم میں بے نامی دار کی تعریف تبدیل کر دی گئی ہے، اب نیب ترامیم سے یہ لازم قرار دیا گیا ہے کہ پہلے پراسیکیوشن ثابت کرے کہ کرپشن کے پیسے سے بے نامی جائیداد بنی، نیب ترامیم سے استغاثہ پر غیر ضروری بوجھ ڈالا گیا ہے، بے نامی کے خلاف کارروائی تو احتسابی عمل کا مرکز ہے، کم از کم یہ تو طے ہونا ضروری ہے کہ اثاثے کرپشن سے تو نہیں بنائے گئے۔
وفاق کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ کرپشن ثابت کرنے کے لیے صرف بے نامی دار کا الزام لگا دینا کافی نہیں، پراسیکیوشن کو ثابت بھی کرنا ہو گا کہ بے نامی دار ہے یا نہیں، عدالت کا کام قانون میں ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ نیب ترامیم سے بنیادی حقوق متاثر نہیں ہو رہے۔وفاق کے وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ میری گزارش یہی ہے کہ بنیادی حقوق متاثر نہیں ہوئے۔چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ لگتا ہے کہ اب آمدن سے زائد اثاثے رکھنا سنجیدہ جرم نہیں رہا۔وفاق کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ برطانیہ میں غداری پر سزائے موت ختم کی جا چکی ہے تاہم اس سے غداری کم سنگین جرم نہیں بن گیا، قانون کی سختی کم کرنے کا مطلب مجرموں کی حوصلہ افزائی کرنا نہیں ہوتا، مختلف ادوار میں جرائم سے نمٹنے کے لیے مختلف طریقہ کار اپنایا جا سکتا ہے، 50 کروڑ روپے کی حد اس لیے مقرر کی گئی کیونکہ مختلف عدالتوں کی آبزرویشنز تھیں، نیب میگا کرپشن کیسز کے لیے بنایا گیا تھا۔چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہاں ٹھیک ہے ہمارے لیے یہ مسئلہ نہیں ہے، اگر ہم 1999 سے اب تک پبلک سیکٹر میں دیکھیں تو گراوٹ نظر آئے گی، پی آئی اے کو دیکھ لیں، بجلی کی ترسیلاتی کمپنیوں کو دیکھ لیں، لائن لاسز پورے ملک میں 40 فیصد تک ہیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے مخدوم علی خان سے استفسار کیا کہ کے الیکٹرک میں لائن لاسز کتنے ہیں؟مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ نے کے الیکٹرک پر از خود نوٹس لیا تھا جس میں یہ ساری باتیں زیرِ بحث آئیں۔چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ بہتر ہے کہ اب خواجہ حارث کو سن لیں، مخالف فریق کا کہنا ہے کہ ہم نے کچھ جرائم کو نیب سے ختم نہیں کیا بلکہ از سرِ نو تشکیل دیا ہے۔
خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 2018 سے 2021 تک نیب تفتیش اور ریفرنسز کی مد میں18 ارب روپے خرچ ہوئے، قانون کا ماضی سے اطلاق کرنے سے عوامی پیسے ضائع ہوں گے۔جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا مو 18 ارب روپے خرچ کرنے پر سپریم کورٹ پارلیمان کو قانون سازی سے روک سکتی ہے؟درخواست گزار کے وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ عوامی پیسے کا ضیاع مفادِ عامہ کے تحت آتا ہے، نیب ترامیم سے پلی بارگین کا پورا عمل روک دیا گیا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پلی بارگین کا عمل پارلیمنٹ نے اس لیے روکا کہ کچھ پلی بارگین کیسز میں دباو کا پہلو موجود تھا۔خواجہ حارث نے کہا کہ ترامیم کے بعد 50 کروڑ روپے سے کم پلی بارگین کرنے والا درخواست دے کر صاف شفاف ہو جائے گا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پلی بارگین ختم کرانے والا کسی دوسرے قانون کی زد میں آ جائے گا۔وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ترامیم میں کہیں نہیں لکھا کہ نیب سے واپس ہونے والا مقدمہ کہاں چلے گا۔چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ سنجیدہ معاملہ ہے کہ 49 کروڑ روپے کرپشن والا نیب سے بچ کر آزاد ہو جائے گا۔وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ جو جرائم نیب قانون میں درج ہیں وہ کسی اور قانون کا حصہ نہیں ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ پارلیمان کرپٹ ملزمان کو کسی اور قانون کے دائرے میں لانا چاہتی ہے تو اس میں کیا غلط ہے؟وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نیب ترامیم سے سیکڑوں افراد کو کلین چٹ دی گئی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ منتخب ایوان کے فیصلے کا ہم غیر منتخب افراد ایک حد تک جائزہ لے سکتے ہیں۔وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت پارلیمان کی مخصوص افراد کو فائدہ پہنچانے کی قانون سازی کا جائزہ لے سکتی ہے۔چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ مخصوص افراد کے لیے قانون سازی ثابت کرنے کا پیمانہ کافی سخت ہے۔خواجہ حارث نے کہا کہ اس سے متعلق عدالتی فیصلے موجود ہیں۔بعد ازاں کیس کی سماعت ملتوی کر دی گئی ۔