اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک /این این آئی) حادثے سے 3 دن قبل انجن خراب ہوگیا تھا، پاکستانیوں کو جان بوجھ کر کشتی کے سب سے خطرناک حصے میں رکھا گیا،برطانوی اخبار کی رپورٹ میں ہولناک انکشافات ۔ تفصیلات کے مطابق عملے نے پاکستانیوں کو جان بوجھ کر کشتی کے سب سے خطرناک حصے میں لے کر جاکر بند کردیا۔ حادثے سے تین دن قبل کشتی کا انجن خراب ہوگیا تھا۔
یونانی کوسٹ گارڈز نے جان بوجھ کر مدد نہیں کی۔ نجی ٹی وی نیو نیوز کے مطابق زندہ بچ جانے والے تارکین وطن کے بیان کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ پاکستانیوں کو پناہ گزینوں کی کشتی پرچھت سے نیچے لاکر خطرناک حصے میں رکھا گیا جس کی وجہ سے زیادہ پاکستانی جاں بحق ہوئے۔ برطانوی اخبار “دی گارجین” نے لکھا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو اس ٹرالر میں شامل کیا گیا ہے جو گذشتہ بدھ کو یونان کے قریب ڈوب گیا تھا جس میں سینکڑوں مسافروں کی ہلاکت کا خدشہ تھا۔
اخبار کا کہنا ہے کہ زندہ بچ جانے والوں کی طرف سے کوسٹ گارڈز کو دیے گئے بیان (جو لیک ہوگیا)کے مطابق پاکستانیوں کو ڈیک کے نیچے زبردستی لایا گیا ۔ دوسرے ملکوں کے شہریوں کو اوپر والے ڈیک پر جانے کی اجازت دی گئی جہاں ان کے ڈوبنے سے بچنے کا بہت زیادہ امکانات تھے۔ بیانات سے پتا چلتا ہے کہ خواتین اور بچوں کو کشتی کے نچلے حصے میں “بند” کر دیا گیا تھا ۔ پاکستانی شہریوں کو بھی ڈیک کے نیچے رکھا گیا تھا جب وہ تازہ پانی کی تلاش میں اوپر آتے یا فرار کی کوشش کرتے تو عملے کے ارکان نے ان کے ساتھ بدسلوکی کرتے تھے ۔ دی گارجین کا کہنا ہے کہ کشتی حادثے میں کوئی خاتون یا بچہ زندہ نہیں بچا ۔
ایک اندازے کے مطابق جہاز میں تقریباً 400 پاکستانی سوار تھے۔ وزارت خارجہ نے اب تک تصدیق کی ہے کہ زندہ بچ جانے والے 78 میں سے صرف 12 کا تعلق پاکستان سے ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کشتی کے حالات اتنے خرات تھے کہ اس کے ڈوبنے سے پہلے ہی پانی ختم ہونے کے بعد چھ افراد ہلاک ہو چکے تھے۔
ایک مراکشی-اطالوی سماجی کارکن اور ایکٹوسٹ نوال سوفی نے اخبار کو بتایا کہ مسافر اس کے ڈوبنے سے ایک دن پہلے مدد کے لیے التجا کر رہے تھے۔میں گواہی دے سکتی ہوں کہ یہ لوگ کسی بھی اتھارٹی سے مدد کے لیے کہہ رہے تھے ۔ یونانی حکام نے اس بیان کی تردید کی ہے ۔اور کہا کہ مسافروں نے کوسٹ گارڈ کو مدد کے لیے کوئی درخواست نہیں کی کیونکہ وہ اٹلی جانا چاہتے تھے۔
کشتی کا انجن ڈوبنے سے تین دن پہلے ہی فیل ہو گیا تھا جس سے امکان ہے کہ عملے نے مدد طلب کی ہو گی۔ زندہ بچ جانے والے ایک تارک وطن کا کہنا ہم نے جمعہ کے دن فجر کے وقت سفر شروع کیا۔ تقریباً 700 افراد جہاز میں سوار تھے۔ہم تین دن تک سفر کر رہے تھے اور پھر انجن فیل ہو گیا۔اخبار کا کہنا ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق کوسٹ گارڈز نے کشتی کو رسی باندھی تھی ۔ بیلنس برقرار نہ رکھ سکنے کی وجہ سے کشتی الٹ گئی ۔
حادثے کے فوری بعد کوسٹ گارڈ کا کہنا تھا کہ ہم نے کشتی سے “احتیاطی فاصلہ” رکھا ہے، لیکن جمعہ کو ایک حکومتی ترجمان نے تصدیق کی کہ کشتی کو “مستحکم” کرنے کے لیے رسی پھینکی گئی تھی۔کوسٹ گارڈز کو منگل کی دوپہر ہی کشتی میں خرابی کا پتا چل گیا تھا ۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یونانی کوسٹ گارڈز کو کشتی میں سوار افراد کی مدد کرنا چاہیے تھی۔
خیال رہے کہ لیبیا سے اٹلی جاتے ہوئے یونان میں حادثے کا شکار ہونے والی کشتی میں 310 پاکستانی سوار تھے جن میں سے صرف 12 بچ سکے، یونانی حکومت نے ریسکیو آپریشن بند کر کے تمام لاپتہ افراد کو مردہ قرار دے دیا۔جہاز پچھلے کئی دن سے سمند کے اندر خراب تھا،جہاز کو ٹیک کرنے کی بجائے چھوٹی کشتی سے کھینچا گیا جس سے وہ الٹ گیا
جہاز میں سوار صرف 12 افراد کو زندہ بچایا جا سکا، پاکستانی سفارتخانہ بھی حرکت میں آ گیا۔حادثے کا شکار ہونے والے پاکستانیوں میں 135 کا تعلق آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں سے ہے، یونانی حکومت کی طرف سے ریسکیو آپریشن چار روز تک جاری جس میں کسی بھی تارکین وطن کو آخری دو دونوں میں ریسکیو نہیں کیا جا سکا۔
ذرائع کے مطابق جاں بحق ہونے والے 79 افراد کی لاشیں مل گئی ہیں جن کی شناخت نہیں ہو سکی، ڈی این اے کے بعد ہی جاں بحق ہونے والوں کی شناخت ممکن ہوگی، کشتی سانحہ میں مجموعی طور پر 104 افراد کو ریسکیو کیا گیا۔دوسری جانب 12 پاکستانی شہریوں نے ایف ائی اے کو اپنے ایجنٹوں کے نام بھجوا دیے ہیں جس پر ایف ائی اے نے ایجنٹوں کی گرفتاری کیلئے کوششیں شروع کر دی ہیں۔خیال رہے کہ کچھ روز پہلے بھی لیبیا میں کشتی ڈوبنے سے 17 پاکستانی اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔