اسلام آباد (این این آئی) سینٹ نے تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی مخالفت کے باوجود انتخابی ایکٹ (ترمیمی) بل 2023 کی منظوری دیدی جبکہ چیئرمین و ڈپٹی چیئر مین سینیٹ، قائد ایوان، قائد حزب اختلاف اور اراکین کی تنخواہوں، الائونسز اور مراعات (ترمیمی) بل 2023 کی متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا ۔
جمعہ کو اجلاس میں وزیر مملکت برائے قانون و انصاف سینیٹر شہادت اعوان نے انتخابی ایکٹ 2017 میں ترمیم کا بل انتخابی ایکٹ (ترمیمی) بل 2023 پیش کرنے کے لئے تحریک پیش کی۔ وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پہلے انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس تھا، 1977 کے مارشل لا کے بعد آرڈیننس کے ذریعے انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار صدر کو دیدیا گیا، الیکشن کمیشن نے اس میں ترمیم کی تجویز دی تھی جس کے بعد انتخابی ایکٹ میں ترمیم کے لئے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی قائم کی گئی تھی اور یہ ان سفارشات کے تناظر میں پیش کیا جا رہا ہے، انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار الیکشن کمیشن کا ہے، آئین کے تابع قانون سازی کا اختیار پارلیمنٹ کا ہے۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے ترمیم کی مخالفت کہا کہ صرف آئینی ترمیم کے ذریعے یہ ترمیم کی جا سکتی ہے۔قائد حزب اختلاف شہزاد وسیم نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ آئینی مسائل کو عام قانون سازی سے حل کرنے کی نئی روایت قائم کی جارہی ہے ،قانون سازی سے آئین کی ہیئت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ انہوںنے کہاکہ آئین صدر کو اختیار دیتا ہے کہ وہ مخصوص حالات میں انتخابات کی تاریخ دے سکتا ہے۔
انہوںنے کہاکہ انتخابات کی تاریخ کے تعین کا کلی اختیار الیکشن کمیشن کو دینا زیادتی ہوگی۔ انہوںنے کہاکہ سادہ قانون سازی سے الیکشن کمیشن کو یہ اختیار دینا ممکن نہیں۔اجلا س کے دور ان حافظ عبدالکریم کی جانب سے نااہلی سے متعلق قانون کی ترمیم پیش کی گئی جبکہ سینیٹر دلاور خان نے بھی اہلی سے متعلق ترمیم پیش کر دی تاہم جماعت اسلامی نے بل کی مخالفت کردی۔
سینیٹر مشتاق احمدنے کہاکہ 62 اور 63 اسلام کا تقاضا ہے،یہ قانون سازی مخصوص افراد کے لئے کی جارہی ہے،اگر ایسا ہے تھا تو اس کو ایجنڈے کے ہٹ کر سپلیمنٹری ایجنڈے میں کیوں لایا گیا؟ ۔اجلاس کے دور ان حافظ عبدالکریم نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم پیش کر دی جبکہ ترمیم دلاور خان ، کہدا بابر ، دنیش کمار ، پرنس احمد زئی کی جانب سے ترمیم پیش کی گئی ۔
حافظ عبدالکریم نے کہاکہ یہ ترمیم موجودہ صورت حال میں ضروری ہے،ملک میں ایسے فیصلے ہوئے جس سے ملک کو نقصان ہوا،پارلیمنٹ کے ممبر کا احتساب ہوتا ہے جب وہ انتقام کی صورت اختیار کرتا ہے تو ملک کو نقصان ہوتا ہے۔ انہوںنے کہاکہ پانچ سال کی ناہااہلیت کچھ ادارے کرتے ہیں ،جو شخص پسند نہیں ہوتا اسے ہمیشہ کے لئے نااہل کر دیتے ہیں ۔
دلاور خان نے کہاکہ ملک کا تین مرتبہ وزیر اعظم بننے والے نواز شریف پر یہ تلوار پھیری گئی،پارلیمنٹ کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس رہے ناکہ ہمارے فیصلہ ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ چلا جائے اور وہ تاحیات نااہل کردیں۔ انہوںنے کہاکہ یہ ڈریکونین قانون ہے ۔ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہاکہ آئین بالکل خاموش نہیں ہے،ائین کی تشریح عدالت نے کرنی ہے،کسی فرد سے متعلق قانون سازی اچھی قانون سازی میں شمار نہیں ہوتی۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہاکہ قانون سازی اس ایوان کا اختیار ہے ،قانون سازی کہیں اور نہیں ہو سکتی ،گروہی اختلافات کو مقدس فریضہ سے گڈ بڈ نہ کریں ۔یوسف رضا گیلانی نے کہاکہ جب میری حکومت تھی تو ہم نے 582b کا اختیار صدر سے لے کر پارلیمنٹ کو دیا،میں اپنی سزا بھگت چکا لیکن آنے والوں کے راستہ ہموار کرنا چاہتا ہوں۔منظور کاکڑ نے کہاکہ چاہتے یہ بل متفقہ طور پر منظور کیا جائے
چاہتے ہیں پارلیمنٹ کے اختیارات پارلیمنٹ میں ہی رہیںتاہم وزیر مملکت شہادت اعوان کی جانب سے پیش کر دہ الیکشن ایکٹ 2017 میں مزید ترمیم کا بل کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا اس دور ان پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی نے بل کی مخالفت کی ۔ بعد ازاں چیئرمین سینیٹ نے بل شق وار منظوری کے لئے ایوان میں پیش کیا جس کی ایوان نے منظوری دیدی۔
اجلاس کے دور ان سینٹ نے چیئرمین سینیٹ، قائد ایوان، قائد حزب اختلاف اور اراکین کی تنخواہوں، الائونسز اور مراعات (ترمیمی) بل 2023 کی متفقہ طور پر منظوری دیدی اس ضمن میں سینیٹر کہدہ بابر نے اس سلسلے میں تحریک پیش کی جس کی ایوان نے منظوری دیدی۔ بعد ازاں چیئرمین سینیٹ نے بل شق وار منظوری کے لئے ایوان میں پیش کیا جس کی ایوان نے متفقہ طور پر منظوری دیدی۔
اجلا س کے در ان ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی تنخواہ، الائونسز اور مراعات (ترمیمی) بل 2023 کی متفقہ طور پر منظوری دیدی گئی اس ضمن میں سینیٹر کہدہ بابر نے تحریک پیش کی جس کی ایوان نے منظوری دیدی۔ بعد ازاں چیئرمین سینیٹ نے بل شق وار منظوری کے لئے ایوان میں پیش کیا جس کی ایوان نے متفقہ طور پر منظوری دیدی۔