کیپ ٹاؤن (نیوز ڈیسک)نامعلوم افراد نے جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن کے نواح میں ایستادہ برطانوی نوآباد کار سیسل رھوڈز کے مجسمے کی ناک توڑ دی ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ مجسمے کی ناک بڑے اوزاروں کی مدد سے توڑی گئی ہے۔اس واقعے کے بعد جنوبی افریقہ کی حکومت نے ’ٹیبل ماؤنٹن نیشنل پارک‘ میں مزار کی شکل کی عمارت میں لگے ہوئے اس مجسمے کے ارد گرد حفاظتی اقدامات میں اضافہ کر دیا ہے۔ یہ بات جنوبی افریقہ کے نیشنل پارکس کے ادارے کے ترجمان مرلے کولنز نے بتائی ہے۔ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ واقع جمعے کی صبح پیش آیا اور مجسمے کی ناک توڑنے والوں نے اس پہاڑ پر گریفیٹی یا نعرے بھی لکھ دیے تھے جہاں یہ مجسمہ کھڑا ہے۔ ترجمان کے مطابق پارک کے عملے کے افراد ان نعروں اور تصویروں کو مٹا رہے ہیں۔برطانوی نوآباد کار سیسل رھوڈز کے مجسمے کے پاس پہاڑ پر جو نعرے درج تھے ان میں یہ نعرہ بھی شامل تھا: ’یہاں تمہارے شہنشاہت کے خواب دم توڑ دیں گے۔‘یاد رہے کہ کیپ ٹاؤن یونیورسٹی کے طالب علم 19ویں صدی کے برطانوی نوآبادتی دور کی اس اہم شخصیت کے 1934 سے نصب مجمسے کو ہٹانے کے لیے کافی عرصے سے مظاہرے کر رہے تھے۔ طلبہ نے اس سال اپریل میں یونیورسٹی میں نصب سیسل رھوڈز کے ایک دوسرے مجسمے کو وہاں سے ہٹا دیا تھا۔تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ سنہ 1902 میں انتقال کرنے جانے والے سیسل رھوڈز دراصل مقامی سیاہ فام لوگوں کو سفید فام نوآبادیاتی حکمرانوں سے الگ رکھنے کے قائل تھے۔ اگرچہ رھوڈز نے جنوبی افریقہ کی کانوں سے بے شمار دولت کمائی اور مقامی لوگوں سے زمین بھی ہتھیائی، تاہم تاریخ دانوں کے خیال میں وہ تعلیم اور عوامی بہبود کے کاموں سے بھی منسلک رہے۔ کیپ ٹاؤن یونیوسٹی میں ان کے نام سے وظائف بھی دیے جاتے رہے ہیں۔برطانوی خبر رساں ادارے اے پی کو لکھی جانے والی ایک ای میل میں کیپ ٹاؤن پولیس کے ایک افسر کا کہنا تھا کہ پولیس اس مجسمے کو ’عناد کی وجہ سے نقصان پہنچائے جانے‘ کے اس واقعے کی تفتیش کر رہی ہے۔ پولیس کا مزید کہنا تھا کہ ابھی تک کسی شخص کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔دوسری جانب نیشنل پارکس کے ترجمان مرلے کولنز کا کہنا تھا کہ مجسمے پر حملہ کرنے والوں نے ناک توڑنے سے پہلے اس کی بنیادوں کو بھی نقصان پہنچایا اور گردن میں ایک ٹائر ڈال کر اسے آگ بھی لگا دی تھی۔گردن کے گرد رسی ڈالنا دراصل جنوبی افریقہ میں نوآبادیاتی دور کی ایک رسم کی نشاندھی کرتا ہے جس میں ان سیاہ فاموں کو سزا دی جاتی تھی جن کے بارے میں مقامی لوگوں کو شبہہ ہوتا تھا کہ وہ نوآبادیاتی گوروں کا ساتھ دے ر ہے ہیں۔سیسل رھوڈز نوآبادتی نظام کے بڑے حامی تھے اور زمبابوے کی آزادی سے پہلے اس ملک کا نام ’رھوڈیشیا‘ انہی کے نام پرتھا۔سیسل کے مجسمے کے قدموں میں ان کے ہم عصر اور مشہور برطانوی ادیب رْڈیارڈ کِپلنگ کی ایک نظم بھی کندہ ہے۔ رھوڈز کی طرح اب کِپلنگ کو بھی جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے دور کی ایک بْری علامت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ان کی اس نظم کا آخری شعر ہے کہ ’ زندہ تھا تو وہ یہاں کی زمین تھا۔۔۔ روح اْس کی اِس زمین کی روح ہو گی۔‘
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں