پلیز چیف جسٹس کی بات کو تو سیریس لے لیں

21  جون‬‮  2019

” گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے“ ان کا جواب دلچسپ بھی تھا‘ ادبی بھی اور بیورو کریٹک بھی‘ یہ پیشے کے لحاظ سے بیورو کریٹ ہیںاور بھرپور سرکاری زندگی کے بعد آج کل ریٹائرمنٹ گزار رہے ہیں‘ سارا دن ٹیلی ویژن دیکھتے ہیں‘ اخبارات اور کتابیں پڑھتے ہیں‘ واک کرتے ہیں‘ گالف کھیلتے ہیں اور شام کو اپنی بھرپور سرکاری زندگی کے لطیفے سناتے ہیں‘ مجھے پچھلے دنوں ان سے ملاقات کا موقع ملا‘ میں نے ان سے پوچھا ”آپ کو آج کا پاکستان کیسا دکھائی دیتا ہے“۔

انہوں نے فوراً جواب دیا ” گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے“ انہوں نے مختصر فقرے کے ذریعے بات مکمل کر دی لیکن میں اس مکمل بات کی وضاحت اور تشریح کا متمنی تھا لہٰذا میں نے عرض کیا ” جناب مجھے سمجھ نہیں آئی“ وہ مسکرائے اور شوخ آواز میں بولے ” تمہارا تعلق گاﺅں سے ہے“ میں نے ہاں میں گردن ہلا دی‘ وہ بولے ”دیہات میں چارے کے گٹھے‘ گھاس کے پلندے اور سوکھے سرکنڈوں‘ کانوں اور سٹوں کے پیکٹ پر گھاس کی گرہ لگا دی جاتی ہے‘ یہ گرہ اس قدر مضبوط ہوتی ہے کہ گاﺅں کی عورتیں تیس چالیس کلو کا گٹھا سر پر اٹھا کر چل پڑتی ہیں‘ اگر گرہ کمزور ہو جائے یا راستے میں کمزور پڑ جائے تو سارے سٹے‘ سارے کانے‘ سارے سرکنڈے‘ ٹانڈے اور گھاس کے سارے تار بکھر جاتے ہیں“ میں نے ہاں میں سر ہلادیا‘ وہ بولے ” حکومت کاری بھی چارے کے گٹھے کی طرح ہوتی ہے‘ اس میں محکمے‘ شعبے اور دفتر بندھے ہوتے ہیں اور ان پر سسٹم کی گرہ ہوتی ہے‘ اگر یہ گرہ کمزور پڑ جائے تو دفتروں‘ شعبوں اور محکموں کے ٹانڈے الگ الگ ہو جاتے ہیں‘ سارا نظام بکھر جاتا ہے اور ہمارے سسٹم کی گرہ بھی کھل رہی ہے‘ سیاست کی زبان میں اس صورت حال کو انارکی کہتے ہیں“۔مجھے ان کی بات سے اتفاق نہیں تھا کیونکہ میں سمجھتا ہوں اس گئے گزرے دور میں بھی پاکستان میں بے شمار خوبیاں‘لاتعداد خوب صورتیاں موجود ہیں‘ پاکستان کے عوام کو ملک سے محبت ہے۔

آج بھی اگر خدانخواستہ پاکستان پر کوئی برا وقت آجائے تو 20 کروڑ لوگ بلبلا کر باہر آ جائیں گے ‘ آپ کو فروری میں بھارتی سرجیکل سٹرائیک کے دن یاد ہوں گے‘ پورا پاکستان کس طرح باہر نکل آیا تھا‘ ابھی نندن اس کا گواہ ہے لہٰذا میں نے کبھی پاکستان ٹوٹنے کی تھیوری سے اتفاق نہیں کیا‘ملک معمولی ڈپریشن سے ٹوٹا نہیں کرتے‘ افغانستان کی مثال ہمارے سامنے ہے‘ افغانستان میں 1979ءمیں حالات خراب ہوئے اور حالات کی یہ خرابی آج 2019ءتک قائم ہے۔

ان 40 برسوں میں افغانستان نے سکون اور امن کی ایک رات نہیں دیکھی لیکن اس کے باجود افغانستان قائم ہے‘ یہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم نہیں ہوا‘ 40 برسوں کی قیامت کے باوجود آج بھی افغانستان کے بازار کھلے ہیں‘ سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں کلاسیں چل رہی ہیں‘ سڑکوں پر ٹریفک جاری ہے اور باغوں میں پھول اورپھل لگتے ہیں‘ افغانستان میں بجلی بھی موجود ہے‘ گیس کے سیلنڈر بھی بک رہے ہیں اور فیکٹریاں اور ملیں بھی چل رہی ہیں جب کہ پاکستان افغانستان کے مقابلے میں ہزار گنا بہتر ملک ہے۔

اس میں سوویت فوجیں داخل ہوئی ہیں اور نہ ہی امریکا نے ڈیزی کٹر بم برسائے ہیں چناںچہ اسے توڑنا یا اس کا خاتمہ ممکن نہیں‘ میں پاکستان کی اہمیت سے بھی واقف ہوں‘ پاکستان اگر اہم ملک نہ ہوتا تو جاپان سے لے کر یورپ اور مشرق وسطیٰ سے لے کر امریکا تک پوری دنیا اس کے بارے میں متفکر نہ ہوتی‘ دنیا میں فرینڈز آف پاکستان کا فورم ہوتا اور نہ سعودی عرب‘یو اے ای اور چین مشکل معاشی حالات میں پاکستان کی مالی مدد کرتے‘ یہ پاکستان کی اہم پوزیشن ہے جس کے باعث دنیا ہمیں اکیلا چھوڑنے کے لیے تیار نہیں لیکن اس کے باوجود میں پاکستان کے نظام میں آنے والی تبدیلیوں کے بارے میں بھی متفکر رہتا ہوں۔

یہ حقیقت ہے پاکستان کا سرکاری‘ دفتری اور سیاسی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے‘ پاکستان کو اب پرانے طریقے سے چلانا اتنا ہی مشکل ہے جتنا 1902ءکے ڈرائیوروں کے لیے آج کی جدید گاڑیاں ڈرائیو کرنا‘ پاکستان کے ادارے بھی اب کنٹرول سے باہر ہو چکے ہیں‘ ملک کی اصل طاقت کس کے پاس ہے‘ کون سا ادارہ حکومت چلا رہا ہے؟ ہم میں سے کوئی نہیں جانتا۔آج کے پاکستان میں افسروں کے دل سے حکومت کا خوف بھی ختم ہو چکا ہے‘ سرکاری افسر ہوں یا سائل ہوں تمام لوگ ایک دوسرے کے گلے پڑتے ہیں۔

پاکستان میں ایک وقت تھا جب معطلی یا برطرفی سب سے بڑی سزا ہوتی تھی لیکن آج کوئی سرکاری ملازم‘ کوئی سرکاری افسر اس سے نہیں ڈرتا‘ یہ آج سینہ کھول کر سینئرز کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں‘ آپ کو لاہور کے ڈی ایس پی عمران بابر یاد ہوں گے‘ یہ مارچ 2010ءمیں معطل ہوئے اور انہوں نے عوام میں دل کھول کر بولنا شروع کر دیا تھا‘ آپ کو فیصل آباد کا 22 مارچ 2010ءکا واقعہ بھی یاد ہوگا‘ فیصل آباد کے ایک وکیل لیاقت علی جاوید نے بھری عدالت میں سول جج چودھری طارق محمود کہوٹ کو تھپڑ مار دیا تھا ۔

آپ کو یاد ہوگا سول جج کو تھپڑ لگنے کے بعدلاہور‘ فیصل آباد‘ ساہیوال‘ سیال کوٹ‘ قصور‘ خانیوال‘ شیخو پورہ‘ پاک پتن‘ گوجرانوالہ‘ سرگودھا‘ ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ دیپال پور اور عارف والا کے سول ججوں نے ہڑتال کر دی تھی‘ فیصل آباد کے تمام ججوں نے ایک ماہ کی رخصت کی درخواست بھی دے دی تھی‘ دیپال پور کے سارے جج مستعفی ہو گئے تھے اور ڈیڑھ سو کے قریب ججوں نے تبادلوں کی اپیل کر دی تھی‘یہ واقعات آج تک جاری ہیں‘ آج بھی جونیئر پولیس افسر سینئرپولیس افسروں‘ وکلاءججوں اور جج وکلاءاور سرکاری کارندے سرکار کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

آپ اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ کو ہر انارکی ‘ ہر انقلاب سے پہلے اس قسم کے درجنوں واقعات نظر آئیں گے‘یہ چھوٹی چھوٹی بغاوتیں انقلاب کا پیش خیمہ بن جاتی ہیں تاہم اس ساری کنفیوژن‘ اس سارے بحران میں ایک اچھا ٹرینڈ بھی سامنے آ رہا ہے‘ ماضی میں میڈیا بے مہار ہوتاتھا‘ صحافی اور ٹیلی ویژن رپورٹرز جو چاہتے تھے وہ کہہ دیا کرتے تھے‘یہ اپنی مرضی کی خبریں بھی چھاپ دیتے تھے لیکن اب ایسانہیں ہو رہا ‘میڈیا اب حقائق کو دس دس چھاننیوں سے چھان کر شائع کرتا ہے‘میں میڈیا کے اس ٹرینڈ کو گٹھے کی گرہ سمجھتا ہوں۔

یہ گرہ اگر مضبوط ہو گئی تو چھوٹی بڑی انارکی ملک کو تباہ نہیں کر سکے گی‘ حکومت کو چاہیے یہ میڈیا کے اس ٹرینڈ کو سپورٹ کرے‘ ہمارا معاشرہ کھائی کے کنارے تک پہنچ چکا ہے‘ پاکستان میں لوگ معمولی معمولی باتوں پر خود کشیوں کی دھمکیاں دے رہے ہیں‘ لوگ تیل کی بوتلیں اور ماچسیں لے کرگھروں سے نکل کھڑے ہوتے ہیں اور ملک میں نوجوان خود کش حملہ آور بننے کےلئے تیار ہیں‘ پاکستان میں نظریاتی‘ لسانی اور مذہبی اختلاف پر لوگوں کے گلے کاٹے جاتے ہیں ۔

لوگ منہگائی اور بے روزگاری پر سرکاری املاک پرحملوں کو اپنا استحقاق سمجھنے لگے ہیں اور صوبے بجٹ پر ایک دوسرے سے الگ ہونے کی دھمکیاں دے رہے ہیں‘ملک میں اب ججوں کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس پر پورے ملک میں ابال آ رہا ہے اور معاشرے میں اندر ہی اندر لاوا پک رہا ہے‘ ہمارے حکمرانوں‘ ہمارے سیاستدانوں کو اس بدلتے ہوئے پاکستان کو سمجھنا چاہیے‘ملک کی کوئی بھی حکومت اب سسٹم 1980ءاور 1990ءکے فارمولوں سے نہیں چلاسکے گی۔

یہ لوگ گاڑیوں کو چابک سے سٹارٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ یہ ابھی تک دھمکیوں‘ دھونس‘ دھاندلی‘ کرپشن اور ” لو اور دو“ کی سیاست کر رہے ہیں‘ یہ ابھی تک چائے کے ساتھ کھیرے کھا رہے ہیں‘ یہ دھوتی کے اوپر ٹائی باندھ رہے ہیں‘یہ ٹیلی ویژن کا سوئچ آف کر کے یہ سمجھ رہے ہیں اب خبر رک جائے گی اور ان کا خیال ہے لوگ آج 2019ءمیں 1988ءکی طرح ان کے سارے وعدوں‘ ساری باتوں پر یقین کر لیں گے‘ یوٹرن کو یو ٹرن اور ڈیڈ لاک کو ڈیڈ لاک نہیں سمجھیں گے‘ یہ سوچ اتنی ہی بڑی بے وقوفی ہے جتنی بڑی بے وقوفی جیٹ جہاز کو اونٹ کی نکیل ڈالنے کی کوشش ۔

پاکستان تبدیل ہو چکا ہے اور اس تبدیل شدہ پاکستان کی سرکاری پوٹلی کی گرہ ڈھیلی پڑ رہی ہے چناں چہ اگراس پاکستان کو آج کے تقاضوں کے مطابق چلانے کی کوشش نہ کی گئی‘ اسے کارپوریٹ سپرٹ نہ دی گئی‘ اسے فیکٹریوں‘ فرموں اور کمپنیوں کے سٹائل میں نہ چلایا گیا اور پاکستان کے صدر سے لے کر چپڑاسی تک تمام شہریوں کو قانون کی نظر میں برابر نہ کیا گیا تو ملک کو انارکی سے نہیں بچایا جا سکے گا۔آپ یقین کیجیے اگر ہمارے حکمران نہ سنبھلے تو وہ وقت دور نہیں جب محروم لوگ اینٹیں لے کر گاڑیوں کی چھتوں پر چڑھ جائیں گے اور ہر ٹائی کو پھانسی کا پھندا بنا دیں گے۔

یہ درست ہے پاکستان بدتر انارکی میں بھی قائم اور زندہ رہے گا لیکن یہ بھی حقیقت ہے ہماری پولیٹیکل کلاس اس انارکی کا نوالہ بن جائے گی بالکل ایران اور افغانستان کی اس رولنگ کلاس کی طرح جس نے سنبھلنے سے انکار کر دیا تھا اور آج ان کے بچے یورپ میں برتن مانج رہے ہیں‘ ملک بچ گئے لیکن ان کی حکمران کلاس دنیا کے جوتے صاف کر رہی ہے اور ہم بھی تیزی سے اس صورت حال کی طرف بڑھ رہے ہیںلہٰذا میری عمران خان سے درخواست ہے آپ حالات کا تجزیہ کریں ‘ معاملات کو ٹھیک کرنے کی کوشش کریں

اور پلیز پلیز! چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کی فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں ہونے والی 19 جون کی تقریر نکال کر پڑھ لیں‘ چیف جسٹس کی گفتگو فائر بریگیڈ کا سائرن ہے‘ آپ اگر اس سائرن پر بھی نہیں جاگتے تو یہ جان لیں گانٹھ کھل جائے گی اور ہم تنکوں کی طرح بکھر جائیں گے‘ چیف جسٹس کی بات سیریس ہے‘ آپ خدا کے لیے اس کو تو سیریس لے لیں۔



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…