خیر کے دو ادارے

2  جون‬‮  2019

وہ دو سال سے کسمپرسی کی زندگی گزار رہا تھا‘ تھر میں خشک سالی کا دور تھا‘ چار سال سے بارشیں کم ہوئی تھیں‘ زمین میں کچھ بھی اگایا نہ جاسکا‘ محنت مزدوری سے دو تین سو روپے مل جاتے تھے لیکن وہ بھی کبھی کبھار ملتے تھے‘سوماریو نے چار سال پہلے قرضہ لیا تھا‘یہ بڑھتا جارہا تھا‘ نوبت فاقوں تک آ چکی تھی‘وہ اپنے آپ کو دیکھتا‘ بچوں کو دیکھتااور پھر آسمان والے کی طرف اور ٹھنڈی آہیں بھرتا‘ مہینوں گزر گئے‘ بارش ہوئی نہ کھیتی سیراب ہوئی ‘ پریشانی‘ بھوک اور افلاس بڑھتی جارہی تھی۔

آخر سوماریو نے فیصلہ کر لیا وہ بچوں کے ساتھ ڈیپلو سے نقل مکانی کر جائے گا‘وہ گوٹھ میار پور چھوڑ دے گا‘ گھر کا جو تھوڑا بہت سامان تھا وہ باندھا اور بچوں کے ساتھ تھر کی گرمی میں پیدل انجانی منزل کی جانب چل پڑا‘وہ جاتے جاتے حسرت سے اپنی زمین کو دیکھتاتھا‘وہ دس ایکٹر زمین کا مالک تھا مگر بنجر زمین سے بھوک تو نہیں مٹ سکتی‘ سوماریو گاﺅں سے نکل ہی رہا تھاکہ اسے مسیحا مل گیا‘ تھر کے باسیوں کی فکر کرنے والا مل گیا‘ مسیحا نے پوچھا سوماریو کہیڑا حال ہے(کیا حال ہے) ‘وہ بولا بھو ک کے ہاتھوں تنگ آکر علاقہ چھوڑ رہا ہوں‘ مسیحا نے اسے کہا‘ علاقہ مت چھوڑو‘ چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ کہاں جاﺅ گے؟ سوماریو انکار کرتا رہا‘ اسے کوئی منزل نظر نہیں آرہی تھی‘وہ بچوں کودیکھ کر روتا جا رہا تھا‘ مسیحا نے اس کی ڈھارس بندھائی‘اسے واپسی پر مجبور کیا ‘وہ گھر پہنچا تو دو مہینے کا راشن اس کی جھونپڑی کے باہر پڑا تھا‘ مسیحا نے کہا‘ سائیں ہم تمہاری زمین سیرا ب کریں گے‘ تم واڑی (کھیتی) لگاﺅ ہم اس میں پانی کا انتظام کریں گے‘ٹیوب ویل لگائیں گے‘کنواں کھودیں گے‘ کنوئیں کے میٹھے پانی سے گوٹھ کے سارے لوگ اور جانور اپنی پیاس بجھائیں گے اور پانی سے تیری کھیتی سیراب ہوگی ‘ زمین کا مالک تو ہے‘ کھیتی لگے گی تو کھیت میں گندم ‘ سبزیاں اور جانوروں کےلئے جو چارہ پیدا ہوگا اس میں40 فیصد حصہ تیرا ہوگا اور باقی 60 فیصد تیرے گوٹھ کے لوگوں میں تقسیم ہوگا۔

سوماریو کو مسیحا کی باتیں اچھی اور بھلی لگ رہی تھیں مگر اسے یقین نہیں آرہا تھا‘ مسیحانے اگلے دن مستریوں کو بھیج دیا‘ سوماریو کو یقین آگیا‘اس نے اپنی بیوی کو ساتھ لے کر واڑی (کھیتی) شروع کر دی‘ مسیحا کا نمائندہ بیج لے کر آگیا‘ بورنگ شروع ہوگئی‘ پندرہ بیس دنوں مین بورنگ مکمل ہوگئی‘ پانی کا فوارہ امڈآیا‘ سوماریو کے آٹھوں بچے بوند بوند کو ترسے ہوئے تھے ‘وہ پانی دیکھ کر دیوانے ہوگئے‘ گوٹھ کے بچے بھی آگئے ‘خوشی کا سماں بن گیا‘ سوماریو کی پتنی تھال میں شکر ڈالے باہر آگئی اور بچوں میں خوشی سے شکر تقسیم کی ۔

قربان نے دنوں میں ٹینکی بھی بنا دی‘ ٹینکی پر ٹونٹیاں لگ گئیں‘ صبح و شام پانی بھرنے والوں کا تانتا بندھ گیا‘ میٹھے پانی کے گھڑے گھروں میں جاتے تو سب سیراب ہو کر چسکیاں لے لے کر میٹھا پانی شربت کی طرح پیتے ‘ٹینکی سے گھڑے بھرنے کے دوران جو پانی گرتا وہ کھیتی کو سیراب کرتا‘ کھیتی سے آہستہ آہستہ ننھی منی کونپلیں پھوٹنے لگیں ‘ ہریالی ہونے لگی‘سوماریو اور اس کی بیوی صبح سویرے کھیتوں کو دیکھتے تو خوش ہوتے‘ مسیحا نے ٹیوب ویل چلانے کےلئے سولر پینلزلگائے تھے۔

پانی پورے پریشر سے آتا تھا اور منٹوں میں کھیتی سیراب ہو جاتی تھی‘ وقت گزرتا گیا‘ سوماریو کی بنجر زمین آباد ہوگئی‘ دس ایکڑ میں گندم‘ سبزیوں اور چارے کی فصل تیار ہوگئی‘ کھیت کو دیکھنے کےلئے دور دراز سے لوگ آنے لگے‘ سوماریو کوسب مبارکباد دیتے تووہ خوشی سے پھولا نہ سماتاتھا‘ وہ بیوی کو کہتا تھا گندم کٹے گی تو وہ اپنے حصے کی گندم رکھ کرباقی شہر میں بیچ دے گا اورسب کےلئے نئے کپڑے لائے گا‘ بیوی خوش ہوجاتی‘ آخر وہ دن آن پہنچا۔

کھیت سے سبزیاں ‘ پیاز اور چارہ کاٹنے کا دن آگیا‘ گندم بھی پک کر تیار ہوگئی‘ آج سوماریو کے گوٹھ میں میلے کا سماں تھا‘ مسیحا نے اپنا نمائندہ پشاور سے بھیجا ‘ گندم کی کٹائی شروع ہوئی‘کھیت سے سومن سے زیادہ گندم نکلی‘سوماریو نے اپنا حصہ رکھا اور باقی گوٹھ کے غریب لوگوں میں تقسیم کر دیا۔سوماریو کا یہ مسیحاڈاکٹر آصف محمود جاہ تھا‘ڈاکٹر صاحب سرکاری ملازم ہیں‘ 1998ءمیں کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی بنائی‘ یہ اب تک 43ڈسپنسریاں بنا چکی ہے‘ سوسائٹی نے اب تک تھر میں میٹھے پانی کے 740 کنوئیں بھی کھدوائے۔

میٹھے پانی کے ان کنوﺅں سے روزانہ ہزاروں انسان اور جانور سیراب ہو رہے ہیں ‘سوسائٹی نے اب تھر کے صحرا کو سر سبز بنانے کا عزم کیاہے‘ سوماریوکے کھیت سے اس کا آغاز ہو گیا ‘ سوماریو کا کھیت کیا بنا تھر گرین فارمز کےلئے دور دراز سے فرمائشیں آنے لگیں‘ مخیر حضرات کو پتہ چلا تو انہوں نے عطیات بھیجنے شروع کر دئیے‘ ماشاءاللہ تین چار ماہ کی مدت میں 50 گرین فارمز بن گئے‘تھر کے لہلہاتے کھیت پنجاب کے کھیتوں کا منظر پیش کر رہے ہیں ۔

گندم بھی اگ رہی ہے‘ پیاز بھی‘ موسمی سبزیاں بھی اور جانورں کے لیے چارہ بھی‘ تھر میں جہاں پہلے ریت اڑتی تھی وہاں اب سبزہ اور گندم کی فصلیں لہلہا رہی ہیں‘ اللہ کے فضل سے اور مخیر حضرات کے تعاون سے تھر کی سو ایکڑ سے زیادہ بنجر اور بے آباد زمین آباد ہو چکی ہے‘تھر کے جس علاقے میں گرین فارم بناوہاں سے غربت اور بیماری کا خاتمہ ہوگیا‘ تھر میں گرین فارم تحریک زور پکڑ رہی ہے‘ لوگ اپنے طور پرکسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی کے تحت بنائے گئے کنوﺅں کے ارد گرد کھیت بنا رہے ہیں۔

تھر کی زمین بنجر ضرور ہے مگر یہ اتنی طاقتور ہے کہ اسے جوں ہی پانی ملتا ہے یہ پھلنے پھولنے لگتی ہے‘ میری قارئین سے گزارش ہے آپ تھر کے صحرا کو سر سبز بنانے کے لیے سوسائٹی کا ساتھ دیں تاکہ وہاں سے بھوک‘ افلاس اور بیماری کا خاتمہ ہو سکے۔آپ عطیات کےلئے ڈاکٹر آصف محمود جاہ سے0333-4242691نمبر پر رابطہ کر سکتے ہیں‘ آپ کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی کے اکاﺅنٹ نمبر 4011311614 برانچ کوڈ 1887 نیشنل بنک آف پاکستان ‘مون مارکیٹ برانچ ‘علامہ اقبال ٹاﺅن ‘لاہورمیں رقم بھی جمع کرا سکتے ہیں۔چار سو انچاس‘ جہانزیب بلاک‘ علامہ اقبال ٹاﺅن لاہورپر خط بھی لکھ سکتے ہیں۔یہ خیر کا کام ہے‘ آپ اس میں شریک ہوں‘ آپ تین لاکھ روپے سے ایک گاﺅں کی حالت بدل سکتے ہیں‘آپ مزید معلومات کےلئے 0300-9417290پربھی رابطہ کر سکتے ہیں۔

سندس فاﺅنڈیشن دوسرا فلاحی ادارہ ہے ‘یہ 21سال سے تھیلیسیمیا‘ ہیمو فیلیا اور بلڈ کینسر کے مرےض بچوں کا علاج کر رہا ہے ‘سندس کی بنیاد رمضان المبارک مےں رکھی گئی تھی‘ فاﺅنڈیشن کانام تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا بچی کے نام پر رکھا گےاتھا‘محمد یاسین خان نے ادارے کی بنےاد رکھی اور منو بھائی(مرحوم) کو دورے کی دعوت دے دی‘ منو بھائی تھیلیسیمیا‘ ہیمو فیلیا کے مرض میں مبتلابچوں سے ملے اور اپنی باقی زندگی تھیلیسیمیااور ہیمو فیلیا میں مبتلا بچوں کےلئے وقف کر دی۔

وہ آخری سانس تک سندس فاﺅنڈیشن سے منسلک رہے اور آج بھی سندس فاﺅنڈیشن کے میر کارواں ہیں ‘سند س فاﺅنڈیشن کے 6سےنٹرزمیں 6000مریض بچے ہیں‘ یہ طبی ماہرین اور کوالیفائیڈ عملے کے ذریعے بچوں کو علاج و معالجہ کی سہولتیں فراہم کر رہی ہے‘سینٹرز لاہور‘گوجرانوالہ‘ گجرات‘سےالکوٹ‘فیصل آبا د اوراسلام آباد میں قائم ہیں‘سندس فاﺅنڈیشن تھیلیسیمیا‘ ہیمو فیلیا ‘بلڈ کینسر ےا خون کے دیگر امراض میں مبتلا مریضوں کو صاف اور صحت مند خون کے ساتھ ساتھ ادوےات بھی بلا معاوضہ فراہم کرتی ہے ۔

سرکاری اور نجی ہسپتالوں کے مریضوں کو بھی خون اور اجزائے خون بلا معاضہ فراہم کیے جاتے ہےں ‘منوبھائی تھیلیسیمیا کے علاج کے ساتھ ساتھ اس کے تدارک کے خواہش مند بھی تھے‘اس مقصد کےلئے انہوں نے جدید آلات سے آراستہ ایک ڈی این اے لیب قائم کی‘ اس منصوبے کو سن میک (سندس مالیکیولر اینالسز سنٹر) کا نام دیا گیا‘اس لےبارٹری کی بدولت سند س فاﺅنڈیشن شادی سے قبل تھیلسیمیا کا ٹےسٹ بلا معاوضہ فراہم کررہی ہے۔

سندس فاﺅنڈیشن کے زیر اہتمام موروثی بیماریوں کی آگاہی کےلئے سیمینار بھی منعقد کے جاتے ہیں تا کہ معاشرے کو ان بیماریوں سے متعلق آگاہی بھی دی جائے اور آنے والی نسلوں کو بچایا بھی جا سکے‘سندس فاﺅنڈیشن کے مریض تعلیمی مےدان مےں کامیابیاں حاصل کر کے معاشرے کے شانہ بشانہ چل رہے ہیں‘ مناسب علاج کی بدولت مریض معاشرے پر بوجھ نہیں ہیں‘ یہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ ملازمتوں پر بھی فائز ہیں اور کاروبار سے بھی منسلک ہیں۔

سندس فاﺅنڈیشن میں رجسٹرڈ درجنوں مریض بچوں کو تعلیمی میدان مےں کامیابی کی بنیاد پر گولڈمیڈلز اور سر ٹیفکیٹ سے بھی نوازا گیا ‘گزشتہ سال سند س فاﺅنڈیشن نے مخیر حضرات کے 20کروڑروپے زکوٰةو عطیات سے 80ہزار سے زائد مریضوں کو علاج معالجہ کی سہولیات فراہم کیں‘اس سال مریضوں کےلئے 25کروڑ روپے چاہئیں‘تمام مخیر حضرات سے درخواست ہے اپنی زکوٰة وعطیات سندس فاﺅنڈیشن کو دیں‘منوبھائی نے اپنی زندگی میں سندس فاﺅنڈیشن کےلئے ہسپتال کی جگہ خرید لی تھی۔

ان کی دلی خواہش تھی ‘عالمی معیارکامقصدکے تحت ہسپتال بنایا جائے‘ آپ حضرات کے تعاون سے اس رمضان کے بعد ہسپتال کی تعمےر شروع ہو جائے گی‘مشینری اورتعمیر کا تخمینہ تقریباً 50کروڑ روپے ہے ‘مخیر حضرات تعمیر میں حصہ ڈال کر اپنے عزیز واقارب کے لےے صدقہ جاریہ بھی کر سکتے ہیں اور اپنی کمپنی کے نام سے بھی منسوب کر سکتے ہیں ۔سندس فاﺅنڈیشن اپنے کام کا دائرہ کا ر کراچی ‘پشاور‘کو ئٹہ‘آزاد کشمیر ‘  گلگت اور بلو چستان تک بڑھانا چاہتی ہے‘ اس کےلئے بھی فنڈز کی ضرورت ہے ‘آپ اپنی زکوٰة اور عطیات درج ذیل اکاﺅنٹس میں جمع کرا سکتے ہیں۔مزید تفصیلات کیلئے صدر سندس فاﺅنڈیشن محمد یاسین خان سے موبائل نمبر -0333-4211261 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔۔

اکاﺅنٹ نمبر : 0974871811009130 ‘برانچ کوڈ : 0776مسلم کمرشل بنک لمیٹڈ‘شادمان برانچ ‘لاہور
اکاﺅنٹ نمبر: 00100122582530015‘ برانچ کوڈ: 0227الائےڈ بنک لمیٹڈ‘شادمان کالونی برانچ ‘لاہور
میں دونوں اداروں کے ساتھ ذاتی طور پر وابستہ ہوں‘ یہ دونوں جینوئن ہیں‘ احباب سے تعاون کی درخواست ہے۔
۔
۔



کالم



سرمایہ منتوں سے نہیں آتا


آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…

شاہ ایران کے محلات

ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…