عرفان جاوید کی سرخاب

25  اکتوبر‬‮  2018

عرفان جاوید میرے واحد پڑھے لکھے دوست ہیں‘ میں پینڈو ہوں اور پینڈو جبلی لحاظ سے چالاک ہوتے ہیں‘ یہ صرف پریکٹیکل لوگوں کو دوست بناتے ہیں چنانچہ عرفان جاوید کے علاوہ میرے تمام دوست کم پڑھے لکھے پریکٹیکل لوگ ہیں‘ یہ سب لوگ پوری زندگی مل کر کوئی ایک بھی کتاب نہیں پڑھ سکے‘ میں بھی ان کے سامنے یہ غلطی نہیں کرتا‘ میں ہمیشہ ان سے چھپ کر کتابیں پڑھتا ہوں اور انہیں اپنی اس لت کی کانوں کان خبر نہیں ہونے دیتا لیکن عرفان جاوید نہ صرف ان تمام لوگوں سے مختلف ہیں بلکہ یہ ننانوے فیصد پاکستانیوں سے بھی مختلف ہیں‘ میں نے پوری زندگی ان سے زیادہ پڑھا لکھا شخص نہیں دیکھا‘

آپ کسی کتاب کا نام لیں‘ یہ وہ کتاب پڑھ چکے ہوں گے یا پڑھ رہے ہوں گے یا پھر پڑھنے کی تیاری کر رہے ہوں گے‘ یہ ہر وقت علم کی جستجو میں بھی رہتے ہیں‘ انہیں اگر دس منٹ بھی مل جائیں تو یہ گوگل یا کورا کھول کربیٹھ جاتے ہیں‘ سرکاری افسر ہیں‘ 20ویں گریڈ میں ہیں‘ سارا دن دفتری کام کرتے ہیں اور شام کے وقت پڑھنا لکھنا شروع کر دیتے ہیں‘ آدھی رات کو کتابوں پر سو جاتے ہیں اور اگلے دن دوبارہ نہا دھو کر شیو کر کے دفتر پہنچ جاتے ہیں‘ یہ کس قدر شریف آدمی ہیں آپ اس کا اندازہ ایک واقعے سے لگا لیجئے‘ حکومت نے انہیں 2017ءمیں ایک ایسی پوزیشن پر لگا دیاجس کےلئے لوگ سفارش اور رشوت دونوں لے کر پھرتے رہتے ہیں‘ یہ وہاں چلے گئے لیکن چند دن بعد مجھے فون کیا ”کیا تم میرا پہلا اور آخری کام کر سکتے ہو“ میں نے کہا ”ہاں کیوں نہیں“ عرفان صاحب نے کہا ”تم کسی کی منت کر کے مجھے یہاں سے نکلوا کر کسی کھڈے لائین لگوا دو“ میں نے وجہ پوچھی‘ ان کا جواب تھا ”میں یہاں اٹھارہ گھنٹے مصروف رہتا ہوں‘ پڑھنے لکھنے کا وقت نہیں ملتا“ میں نے قہقہہ لگایا‘ میں نے اس کے بعد جس سے بھی درخواست کی‘ وہ یہ سن کر حیران ہوا اور اس نے کہا ”یہ کون شریف آدمی ہے‘ ہمارے پاس اس جگہ تعیناتی کےلئے سفارشیں آتی ہیں‘ یہ پہلا شخص ہے جو یہاں سے جانا چاہتا ہے اور وہ بھی کسی کھڈے لائین“ بہرحال قصہ مختصر ایک قدرتی آفت آئی‘ اللہ نے ان کی سن لی اور یہ وہاں سے ٹرانسفر بھی ہو گئے اور کھڈے لائین بھی لگ گئے‘

یہ اس کھڈے میں بہت خوش ہیں‘ یہ اب دن میں بھی پڑھتے لکھتے ہیں اور رات بھی کتابوں میں سر دے کر بیٹھے رہتے ہیں۔عرفان جاوید افسانے اور خاکے لکھنے کے خبط میں مبتلا ہیں‘ مرحوم احمد ندیم قاسمی سے متاثر ہیں‘ جوانی کا ایک لمبا عرصہ قاسمی صاحب کی صحبت میں گزارا‘ کافی ہاﺅس‘ دروازے اور سرخاب کے نام سے ان کی تین کتابیں شائع ہو چکی ہیں‘ میں کافی ہاﺅس اور دروازے پڑھ چکا ہوں لیکن سرخاب نہ پڑھ سکا‘ یہ ریک میں کتابوں کے نیچے دب گئی ‘

میں اتوار کے دن اخبارات دیکھ رہا تھا‘ میری نظر اچانک انگریزی اخبار کے ادبی صفحے پر پڑی‘ وہاں سرخاب کا ٹائٹل چھپا ہوا تھا‘ میں نے عرفان جاوید کا نام پڑھا تو میں بے اختیار مضمون پڑھتا چلا گیا‘ وہ نفرت سے بھرپور ایک واہیات مضمون تھا‘ میں نے دس منٹ میں مضمون پڑھ لیا‘ وہ سرخاب پر کسی نالائق اور ادب سے نابلد شخص کا مضمون تھا‘ میں نے فوراً ”سرخاب“ تلاش کی اور پڑھنا شروع کر دی‘ میں جوں جوں کتاب پڑھتا گیا‘ میں عرفان جاوید کی صلاحیتوں کا معترف ہوتا چلا گیا‘

میں انہیں بیس سال سے جانتا ہوں لیکن یہ اتنا اچھا‘ جامع اور معطرسوچتے اور لکھتے ہیں مجھے یہ معلوم نہیں تھا‘ سرخاب ایک کتاب نہیں ایک سحر ہے‘ ایک ایسا سحر جو قاری کو چند لمحوں میں اپنا بنا لیتا ہے اور انسان اس میں کھوتا چلا جاتا ہے۔یہ بنیادی طور پر خاکوں کی کتاب ہے‘ کتاب میں 12 مشاہیر کے خاکے ہیں‘ یہ لوگ خالد حسن‘ پروین شاکر‘ استاد دامن‘ سعادت حسن منٹو‘ جون ایلیا‘ منشاءیاد‘ تصدق سہیل‘ گلزار‘ امجد اسلام امجد‘ محمد الیاس‘ ایوب خاور اور افتخار بخاری ہیں‘

یہ خاکے صرف خاکے نہیں ہیں‘ یہ شخصیات پر تحقیقی مقالے بھی ہیں‘ خالد حسن صحافی اور مصنف تھے‘ یہ ذوالفقار علی بھٹو کے پریس سیکرٹری بھی رہے اورپیرس میں پریس اتاشی بھی‘ پروین شاکر اردو زبان کی ایسی شاعرہ تھیں جن کا رچاﺅ اردو شاعری کا حصہ بن چکا ہے‘ ہم اب کچھ بھی کر لیں ہم اردو سے پروین شاکر کے اثرات نہیں دھو سکیں گے‘ استاد دامن پنجابی زبان کے قدرتی شاعر تھے‘ یہ اپنی نظموں سے علامہ اقبال اور پنڈت نہرو تک کی پلکیں گیلی کر دیا کرتے تھے‘

یہ اپنے سائے سے بھی بڑے انسان تھے‘ پوری زندگی مٹی کے کچے کوٹھے میں گزار دی لیکن پنجابی شاعری کورنگ محل بنا گئے‘ سعادت حسن منٹو صرف منٹو تھا‘منٹو کہنے کے بعد مزید کسی لفظ کی ضرورت نہیں رہتی‘ نام ہی کافی ہے‘ جون ایلیا لفظوں کے جادوگر تھے‘ آپ انہیں پڑھیں‘ آپ کو محسوس ہوگا جون ایلیا اردو کے موجد ہیں‘ یہ زبان انہوں نے اپنی ورکشاپ میں تیار کی ‘ یہ اردو کے واحد شاعر تھے جو اگر‘ مگر اور چونکہ اور چنانچہ کو بھی اس طرح استعمال کرتے تھے کہ یہ کھردرے لفظ پھول میں تبدیل ہو جاتے تھے‘

منشاءیاد دیہی زندگی میں گندھی کہانیاں لکھتے تھے‘ آپ ان کی کہانیاں جب بھی پڑھیں آپ کو ان میں ٹھنڈے کنوئیں اور کورے گھڑے کی خوشبو آئے گی‘ تصدق سہیل پاکستان کے آخری بین الاقوامی مصور تھے‘ وہ چیختے ہوئے تیز رنگ استعمال کرتے تھے اور ان کا ہر رنگ دیکھنے والے کو اندر سے تراش دیتا تھا‘ گلزار بس گلزار ہیں‘ کہانی فلمی ہو یا کتابی یہ گلزار کی اجازت کے بغیر کہانی نہیں بنتی‘ امجد اسلام امجد تین نسلوں کا اثاثہ ہیں‘ کل‘ آج اور آنے والی نسل کا اثاثہ‘ ہم جیسے لوگ انہیں دیکھ کر حیران ہوتے ہیں‘

اللہ تعالیٰ نے اردو جیسی محدود زبان میں بھی برنارڈ شا پیدا کر دیا‘ محمد الیاس افسانہ نگار ہیں‘ ان کے افسانے بین الاقوامی ادب کا مقابلہ کرتے ہیں‘ ایوب خاور پی ٹی وی کے تابناک ماضی کی آخری نشانی ہیں‘ ضیاءمحی الدین شو ہو یا پھر نیلام گھر پی ٹی وی کے زیادہ تر عہد ساز کارنامے ایوب خاور کی جیب سے نکلے تھے اور افتخار بخاری سیالکوٹ کے ایک گم نام مگر جینوئن دانشور اور پڑھے لکھے انسان ہیں‘ عرفان جاوید ان سب لوگوں کو سرخاب سمجھتے ہیں‘ انہوں نے ان تمام سرخابوں کے پروں کی تمام سائیڈز قارئین کے سامنے رکھ دیں‘

عرفان جاوید نے اپنے قلم سے ان شخصیات کی شخصیت کے تمام نرم گرم گوشے بھی کھول دیئے‘ ان کے کام کی خوبیاں اور خامیاں بھی سامنے رکھ دیں اور شخصیت اور کام دونوں نے مل کر ادب پر جو اثرات چھوڑے قارئین کو بھی بتا دیا گویا یہ خاکوں کی ایک مکمل کتاب ہے۔خاکہ نگاری ادب کی حساس ترین صنف ہے‘ ادیب اور شاعر اپنی پوری زندگی خرچ کر کے اپنے گرد ادب کا ہیولہ بناتے ہیں اور فین اس ہیولے کے اندر آباد ہوتے ہیں‘ خاکہ نگار کی چھوٹی سی غلطی یا نشتر کی ہلکی سی لرزش سے یہ ہیولہ ٹوٹ جاتا ہے اور فین خود کو چھت کے بغیر محسوس کرنے لگتے ہیں اور یہ فین اور ادیب دونوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے چنانچہ خاکہ نگار کو نشتر چلاتے وقت اس ہیولے کا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے‘

شاعر اور ادیب ادب کی اینٹیں بھی ہوتے ہیں‘ آپ اگر یہ اینٹیں اکھاڑ دیں تو ادب کی ساری عمارت بکھر جاتی ہے‘ خاکہ نگار نے ان اینٹوں کو بھی بچانا ہوتا ہے اور خاکہ نگار خواہ کتنا ہی بڑا‘ کتنا ہی ماہر کیوں نہ ہو جائے یہ جس شخص کا خاکہ لکھ رہا ہے یہ اس سے ہر لحاظ سے چھوٹا ہوتا ہے چنانچہ چھوٹے منہ سے بڑی بات نکالنے کےلئے بھی ریشم کاتنے والے جولاہوں جتنی احتیاط چاہیے ہوتی ہے چنانچہ ادب میں سمجھا جاتا ہے آپ شاعر ہو سکتے ہیں‘

آپ ادیب اور دانشور بھی بن سکتے ہیں لیکن خاکہ نگار بننے کےلئے آپ کو اتنی گرمائش اور اتنا وقت چاہیے جتنا وقت کوئلے کو ہیرا بننے کےلئے درکار ہوتا ہے‘ خاکہ نگاری وضو جتنا مشکل فن ہوتا ہے‘ آپ کو اگر وضو ٹوٹنے کا شک بھی ہو جائے تو آپ نماز نہیں پڑھ سکتے خواہ آپ امام کعبہ ہی کیوں نہ ہوں لہٰذا میں نے بڑے بڑے مشاہیر کو خاکہ نگاری میں لرزتے اور لڑکھڑاتے دیکھا‘ یہ اس جنگ میں اپنا سر تک اتروا بیٹھے لیکن عرفان جاوید اور سرخاب دونوں نے یہ جنگ جیت لی‘

میں نے بڑے عرصے بعد خاکوں کی کوئی ایسی کتاب پڑھی جس میں علم بھی تھا‘ ابلتا پھڑکتا احساس بھی‘ تاریخ کا نوحہ بھی‘ گئے وقتوں کا سیاپا بھی‘ زبان کی کھنک بھی اور ان لوگوں کی یادیں بھی جو دنیا سے جانے کے بعد بھی دماغ کی دیواروں سے چپکے ہوئے ہیں چنانچہ مجھے یہ کتاب ”آل ان ون“ لگی‘ عرفان جاوید شکیل عادل زادہ صاحب کے شاگرد ہیں اور شکیل صاحب اردو زبان کے حاذق طبیب ہیں‘ یہ تحریر پڑھے بغیر زبان کا مرض بھانپ لیتے ہیں‘ یہ شکیل صاحب سے مسلسل اصلاح لیتے رہتے ہیں‘

یہ اصلاح اس کتاب میں جگہ جگہ نظر آتی ہے‘ ہم جانور کو جانور اور حوالدار کو حوالدار لکھتے ہیں لیکن شکیل عادل زادہ اسے ”جان ور“ اور حوال دار لکھتے ہیں‘ عرفان جاوید نے بھی جانور کو ہر جگہ جان ور اور حوالدار کو حوال دار لکھا‘ آپ اگر اردو کے دیوانے ہیں اور آپ کی عمر پچاس اور ساٹھ سال کے درمیان ہے تو پھر آپ کو یقینا بچپن اور جوانی میں مکمل اردو پڑھنے کا موقع ملا ہوگا‘ آپ نے داستان امیر حمزہ بھی پڑھی ہو گی‘ گلستان اور بوستان کا ترجمہ بھی آپ کی نظر سے گزرا ہو گا‘ آپ نے فردوس بریں‘ ہادی رسوا کی امراﺅ جان ادا‘ قراة العین کی میرے بھی صنم خانے اور آگ کا دریا اور میر تقی میر اور استاد ابراہیم ذوق کے ملال میں ڈوبے شعر بھی پڑھے ہوں گے‘

آپ نے میر انیس کے نوحے بھی سنے ہوں گے‘ آپ سرخاب میں اردو کے یہ سارے رنگ‘یہ سارے ڈھنگ اور یہ سارے ذائقے دیکھیں گے‘ میں نے بڑے عرصے بعد لٹکانے کو آویزاں پڑھا اور اسے پڑھ کر اتنی خوشی ہوئی جتنی خوشی چولستان کی خشک زمین کو بادل کا ٹکڑا دیکھ کر ہوتی ہے لہٰذا میں سمجھتا ہوں جب تک اردو ادب زندہ رہے گا یہ کتاب بھی زندہ رہے گی اور اس کتاب کے ساتھ عرفان جاوید کا نام بھی‘ کیوں؟ کیونکہ یہ کتاب صرف پڑھنے والوں کےلئے نہیں یہ پڑھانے اور لکھنے والوں کےلئے بھی ہے‘ یہ ریفرنس بک ہے‘آپ جسے ڈکشنری کی طرح اپنے ساتھ رکھنے پر مجبور ہو جائیں گے۔



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…