’’روضہ رسول ﷺ کے سبز گنبد کو گرا دیا جائے ‘‘ 1925 میں جب سعودی نجدی علما نے سبز گندب کو گرانے کا فتویٰ دیا تو ہندوستان سے کس عالم نے انہیں مناظرے میں شکست دی؟

25  ستمبر‬‮  2017

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) معروف مذہبی سکالر مولانا طارق جمیل نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مدینے میں مسجد نبوی ﷺ پر جو سبز گنبد نظر آتا ہے، یہ تبلیغ جماعت کا کارنامہ ہے۔ 1902میں سلطان عبد العزیز بن عبد الرحمان بن سعود ایک چھوٹی سی ریاست درعیہ کا حکمران تھا۔ عبد العزیز بہت نیک آدمی اور عظیم بادشاہ تھا۔ اس نے 1902 میں ریاض کو فتح کیا۔ ایک چھوٹا سا ماڈل قائم کیا۔ 1924 میں اس نے مکہ اور 1925 میں مدینہ فتح کیا۔

1936 میں اس نے سارا عرب فتح کرکے اس کا نام المملکۃ العربیتہ السعودیہ رکھا۔ 1939 میں وہاں تیل نکل آیا۔ 1925 میں جب مدینہ فتح ہوا تو علمائے نجد جن میں شدت بہت ہے، وہ محبت اور حدود میں فرق نہیں کر سکتے۔ گستاخی بھی حرام ہے اور حدود سے تجاوز بھی حرام ہے۔ ان نجدی علمانے کہا کہ مدینے میں جتنے نشانات ہیں، سارے مٹا دو، اس وقت جنت البقیع کے سارے نشانات مٹا دیئے گئے۔ امہات المومنین، صحابہ، اہلبیت اور آل رسول ﷺ کے سب نشات مٹا دیئے گئے۔انہوں نے کہا کہ یہ سبز گنبد بھی توڑ دیا جائے۔ قبر پر گنبد بنانا منع ہے۔ مولانا طارق جمیل نے کہا کہ یہ بالکل صحیح بات ہے کہ قبر پر گنبد بنانا منع ہے۔ اس سبز گنبد کو توڑ دیا جائے۔ جب یہ فتویٰ دنیا میں پھیلا تو اس پر رد عمل ہوا کہ یہ کیوں توڑا جائے؟ اس وقت سعودی نجدی علما نے مناظرے کی دعوت دی۔ ساری دنیا سے علما وہاں جمع ہو گئے۔ 1925 میں ہندوستان سے بھی ایک وفد وہاں گیا۔ اس وفد میں ایک شخص شبیر احمد عثمانی جو کہ مدرسہ دیوبند کا پڑھا ہوا ہے وہ بھی شامل تھا۔ ہندوستان کے وفد کی جب آپس میں گفتگو ہوئی کہ ہمارا مقدمہ کون لڑے گا تو عراقی ، شامی اور ترک سب علما نے شبیر احمد عثمانی کو ترجمان مقرر کیا۔ سلطان عبد العزیز کے سامنے مناظرہ ہوا۔ علمائے نجد نے اپنے دلائل پیش کئے۔ تمام حدیثیں تھیں اور صحیح حدیثیں تھیں۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے ایک حدیث کو بنیاد بنا کر دو گھنٹے مناظرہ کیا۔

وہ بخاری شریف کی ایک حدیث ہے دینائے کعبہ، اس میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ اے عائشہ! یہ تیری قوم ابھی نئی نئی مسلمان ہوئی ہے، اگر تھوڑا زمانہ گزرا ہوتا تو میں بیت اللہ نئے سرے سے بناتا ہے۔ اس کا فرش نیچے لے جاتا، اس کے دو دروازے بناتا ، ایک داخلی اور ایک خارجی، میں حطیم اس میں شامل کر دیتا، لیکن مجھے خطرہ ہے کہ مسلمان بگڑجائیں گے۔

اس حدیث کو مولانا شبیر احمد عثمانی نے بنیاد بنایا اور دو گھنٹے بات کی۔ علمائے نجد سر جھکا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ سلطان عبد العزیز نے علمائے نجد سے کہا کہ اس کو جواب دو۔ اس وقت علمائے نجد نے کہا کہ ہمارے پاس کوئی جواب نہیں۔ پھر سلطان عبد العزیز نے کہا کہ شبیر احمد عثمانی کا فیصلہ صحیح ہے۔ اسلئے اس سبز گنبد کو باقی رکھا جائے گا۔ یہ سبز گنبد برصغیر کے علما کے طفیل کھڑا ہے۔

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…