لاہور (این این آئی)پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی نے تسلیم کیا ہے کہ پی ایس ایل کا فنانشل ماڈل پی سی بی کے حق میں تھا، فرنچائزز کو ہر ممکن حد تک سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کریں گے۔ایک انٹرویو میں احسان مانی نے پی ایس ایل اور پی سی بی تنازع کے بارے میں کہا کہ پی ایس ایل ہماری ایک خاص پراپرٹی ہے، پاکستان اور عوام کے لیے یہ برانڈ بہت ضروری ہے،
ایسے اختلافات کبھی نہیں چاہیں گے کہ اس کو نقصان پہنچے۔انہوںنے کہاکہ پی ایس ایل اور پی سی بی نے جس معاہدے پر دستخط کیے ہوئے ہیں، وہ بہت زیادہ پی سی بی کے حق میں ہے۔چیئرمین پی سی بی نے کہاکہ یہاں اگر تھوڑا سا بھی کچھ تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو انکوائریز شروع ہو جاتی ہیں، آڈٹ ہونے لگ جاتا ہے، ہم جس حد تک پی ایس ایل فرنچائزز کو اکاموڈیٹ کر سکے کریں گے کیونکہ ہم نے اسے نئی بلندیوں پر لے کر جانا ہے، اس سے پاکستان کرکٹ کا ہی فائدہ ہے۔انہوں نے کہا کہ پوری امید ہے آئندہ ماہ ایسا کچھ پیش کریں گے جس سے پی ایس ایل تگڑی ہو گی، ہم نے پی ایس ایل کو نمبر ون لیگ بنانا ہے۔چیئرمین احسان مانی نے کہاکہ پر اعتماد ہیں کہ پاکستان سپر لیگ کا اگلا ایڈیشن بھی موجودہ حالات میں پاکستان میں کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ بھارت نے اپنی لیگ یو اے ای میں کرائی ہے، وہاں کورونا وائرس کے کیسز تیزی سے بڑھ رہے ہیں جب کہ ہمارے ہاں حالات بہتر ہیں، اوسط 500، 600 کیسز سامنے آ رہے ہیں، ہماری حکومت نے اس حوالے سے بڑی محنت کی جس پر ان کی تعریف کرنی چاہیے، ڈبلیو ایچ او نے بھی پاکستان کی تعریف کی ہے، موجودہ حالات میں بڑی تسلی اور اعتماد ہے کہ ہم پی ایس ایل کا اگلا ایڈیشن یہاں کرا سکیں گے۔جب چیئرمین احسان مانی سے پوچھا گیا کہ پی سی بی پیٹرن انچیف وزیراعظم خان کے کہنے پر ہی آپ نے چئیرمین شپ قبول کی اور اس کا اظہار آپ اکثر کرتے ہیں تو کیا وزیراعظم تین برس کی مدت مکمل ہونے
کے بعد بھی آپ کو ذمہ داریاں نبھانے کا کہتے ہیں تو کیا آپ ذمہ داریاں نبھاتے رہیں گے؟اس حوالے سے احسان مانی نے کہا کہ ابھی اس حوالے سے کوئی بات نہیں، بلیک اینڈ وائٹ کچھ نہیں ہے، جب میں آئی سی سی میں تھا تو مجھے مدت پوری ہونے کے بعد بھی دو برسوں کے لیے پھر کہا گیا لیکن میں نے ایک برس مزید لیا تھا، جہاں تک پی سی بی کی مدت کا تعلق ہے تو جب وقت آئے گا دیکھیں گے
کہ کیا کرنا ہے اور اس پر تب بات کریں گے۔انہوںنے کہاکہ ایک بات طے ہے کہ جب میں نے عہدہ سنبھالا تھا اور کہا تھا کہ پی سی بی میں یہ کرنا ہے، اپنے اہداف مقرر کیے تھے، کوشش ہو گی کہ جب میری مدت ختم ہو وہ سب کچھ پورا ہوا ہو۔چیئرمین پی سی بی نے کہا کہ اب پاکستان میں میجر ایونٹس ہو سکتے ہیں، اب تک جتنے ایونٹس ہوئے اور سیریز کا انعقاد ہوا ہے ان کی سب نے تعریف کی ہے۔
انہوںنے کہاکہ پی ایس ایل کے میچز کے دوران 28 سے 30 ہزار تماشائی اسٹیڈیمز آئے، میچز کے انعقاد میں کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔انہوں نے کہا کہ ہم نے آئی سی سی ایونٹس کی میزبانی کی پیشکش کی ہوئی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اب ہم ایونٹس کرا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ہمیں انفرا اسٹرکچر کو بہت بہتر کرنا ہے، ہمیں 5 سے 10 ارب روپے درکار ہیں اور یہ پیسے بورڈ نے خود خرچ کرنے ہیں،
پی سی بی خود سرمایہ کاری کریگا، ہمیں اسٹیڈیمز کو ورلڈ کلاس بنانا ہے، سال دو سال کے اندر ہم اس حوالے سے کام شروع کریں گے۔احسان مانی نے کہا کہ مصباح الحق کے حوالے سے ہمارے درمیان کوئی تضاد نہیں پایا جاتا، جب مصباح الحق کو ذمہ داریاں دی گئی تھیں تو سوچا یہی گیا تھا کہ ایک ہی شخص کے پاس یہ ذمہ داریاں ہوں تاکہ کوچ اور سلیکٹرز کے درمیان فرق کو کم کیا جا سکے،
شروع سے ارادہ تھا کہ ایک سال کے بعد جائزہ لیا جائے گا۔انہوںنے کہاکہ مصباح الحق کو بھی اس وقت علم تھا کہ ایک سال کے بعد جائزہ لیا جائے گا اور اگر ورک لوڈ زیادہ ہوا تو اس ورک لوڈ کو کم کیا جائے گا، اب بھی سب ورک لوڈ کم ہونے کی وجہ سے ہوا ہے۔چیئرمین پی سی بی نے کرکٹ کمیٹی کو لازمی قرار دیتے ہوئے کہا کہ کرکٹ کے معاملات کرکٹرز کو دیکھنے ہیں اور اس کیلئے کرکٹ کمیٹی کا
ہونا ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے کرکٹ کمیٹی میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔انہوںنے کہاکہ محسن خان نے اچھا کام کیا، انہوں نے اشارہ دیا کہ وہ چیف سلیکٹر بننے میں دلچسپی رکھتے تھے، انہوں نے عزت سے عہدہ چھوڑ دیا۔انہوں نے بتایا کہ اقبال قاسم کے بارے میں امید تھی کہ وہ کام آگے بڑھے گا کیونکہ وہ اچھے ایڈ منسٹریٹر ہیں، وہ چاہتے تھے کہ ڈپارٹمنٹل کرکٹ کو جاری رہنا چاہیے لیکن ڈپارٹمنٹل کرکٹ تو ختم ہو گئی ہے، اب اس کا پاکستان کرکٹ میں کوئی رول نہیں ہے، پی سی بی اور ان کی سوچ میں فرق تھا تو وہ چھوڑ گئے۔