اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)بنی اسرائیل کو فرعون کے چنگل اور غلامی سے نجات دلا کر حضرت موسیٰ علیہ السلام لے آئے تھے۔ بنی اسرائیل سرزمین مقدس فلسطین میں آباد ہو چکے تھے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد حضرت حزقیل علیہ السلام تیسرے نبی تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی ذمہ داری سونپی۔ حضرت حزقیل علیہ السلام سے متعلق ایک تاریخی واقع ایسا ہے
جس کی وجہ سے حضرت حزقیل علیہ السلام مشہور ہوئے۔ حضرت حزقیل سے قبل اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے نبوت سے سرفراز فرمایا، آپ کے بعد حضرت کالب بن یوحنا علیہ السلام مرتبہ نبوت پر سرفراز ہوئے اور آپ کے بعد حضرت حزقیل علیہ السلام آئے۔ آپ ؑ کو ابن العجوز کہہ کر بھی پکارا جاتا ہے۔ ابن العجوز کہلانے کی وجہ یہ ہے کہ یہ اس وقت پیدا ہوئے تھے جب کہ ان کی والدہ ماجدہ بہت بوڑھی ہو چکی تھی۔ آپ ذوالکفل بھی کہلائے آپؑ کا لقب ذوالکفل اس لیے ہوا کہ آپ نے اپنی کفالت میں لے کر ستر انبیاء کرام کو قتل سے بچالیا تھا جن کے قتل پر یہودی قوم آمادہ ہو گئی تھی . پھر یہ خود بھی خدا کے فضل و کرم سے یہودیوں کی تلوار سے بچ گئے اور برسوں زندہ رہ کر اپنی قوم کو ہدایت فرماتے رہے . ( تفسیر الصاوی)۔ حضرت حزقیل کی وجہ شہرت بننے والا واقعہ کچھ ایسے ہے کہ بنی اسرائیل کی ایک جماعت جو حضرت حزقیل علیہ السلام کے شہر میں رہتی تھی ،موت کے خوف سے شہر چھوڑ کر جنگل میں جا کر رہنے لگی۔ ہوا کچھ یوں کہ طاعون کی وبا پھیل جانے سے لوگوں کی اموت شروع ہو گئی تھیں جس کی وجہ سے یہ لوگ موت کے خوف کی وجہ سے شہر چھوڑ کر جنگل میں جا بسے ۔ اللہ تعالی کو ان لوگوں کی یہ حرکت بہت زیادہ ناپسند ہوئی . چنانچہ اللہ تعالی نے ایک عذاب کے فرشتہ کو اس
جنگل میں بھیج دیا،جس نے ایک پہاڑ کی آڑ میں چھپ کر اور چیخ مارکر بلند آواز سے یہ کہہ دیا کہ “موتوا”یعنی تم سب مرجاؤ اور اس مہیب اور بھیانک چیخ کو سن کر بغیر کسی بیماری کے بالکل اچانک یہ سب کے سب مرگئے ۔ روایات کے مطابق فرشتے کی چیخ کی وجہ سے جنگل میں آکر بسنے والی سبھی افراد لقمہ اجل بن گئے جن کی تعداد سترہزار تھی۔ مردوں کی تعداد اس قدر زیادہ تھی کہ
لوگ ان کے کفن و دفن کا کوئی انتظام نہیں کر سکے اور ان مردوں کی لاشیں کھلے میدان میں بے گوروکفن آٹھ دن تک پڑی رہنے کے بعد سڑنے لگیں جس سے بے انتہا تعفن اور بدبو پھیل گئی اور پورے جنگل اور اس کے اطراف میں یہ بدبواور تعفن پھیلنے لگا۔ لوگوں نے ان کی لاشوں کو درندوں اور ان کی بو سے خود کو محفوظ کرنے کیلئے اس جنگل کے اردگرد ایک دیوار بنا دی ۔ کچھ دنوں کے
بعد حضرت حز قیل علیہ السلام کا اس جنگل سے گزر رہوا تو اپنی قوم کے لوگوں کی لاشیں پہچان گئے اور اپنی قوم کے ستر ہزار انسانوں کی اس موت ناگہانی اور بے گوروکفن لاشوں کی فراوانی دیکھ کر رنج و غم سے ان کا دل بھر آیا. آبدیدہ ہو گئے اور باری تعالی کے دربار میں دکھ بھرے دل سے گڑگڑا کر دعا مانگنے لگے کہ یا اللہ یہ میری قوم کے افراد تھے جو اپنی نادانی سے یہ غلطی
کر بیٹھے کہ موت کے ڈر سے شہر چھوڑ کر جنگل میں آگئے . یہ سب میرے شہر کے باشندے ہیں ان لوگوں سےمجھے انس تھا اور یہ لوگ میرے دکھ سکھ کے شریک تھے. افسوس کہ میری قوم ہلاک ہو گئی اور میں بالکل اکیلاہ رہ گیا. اے میرے رب یہ وہ قوم تھی جو تیر ی حمد کرتی تھی اور تیری توحید کا اعلان کرتی تھی اور تیری کبریائی کا خطبہ پڑھتی تھی. آپ بڑے سوز دل کے
ساتھ اس دعا میں مشغول تھے کہ اچانک آپ پر وحی اترپڑی کہ اے حزقیل (علیہ السلام) آپ ان بکھری ہوئی ہڈیوں سے فرمادیجئے کہ اے ہڈیو! بے شک اللہ تعالی تم کو حکم فرماتا ہے کہ تم اکٹھا ہو جاؤ۔ یہ سن کربکھری ہوئی ہڈیوں میں حرکت پیدا ہوئی اور ہر آدمی کی ہڈیاں جمع ہو کر ہڈیوں کے ڈھانچے بن گئے . پھر یہ وحی آئی کہ اے حز قیل (علیہ السلام )آپ فرمادیجئے کہ اے ہڈیو ! تم کو اللہ کا یہ حکم ہے کہ
تم گوشت پہن لو ۔یہ کلام سنتے ہی فوراً ہڈیوں کے ڈھانچوں پر گوشت پوست چڑھ گئے ۔ پھر تیسری بار یہ وحی نازل ہوئی ، اے حز قیل اب یہ کہ دو کہ اے مردو!خداکے حکم سے تم سب اٹھ کر کھرے ہو جاؤ. چنانچہ آپ نے یہ فرما دیا تو آپ کی زبان سے یہ جملہ نکلتے ہی ستر ہزار لاشیںچشم زدن میںکھڑی ہو گئیں۔ پھر یہ سب لوگ جنگل سے روانہ ہو کر اپنے شہر میں آکر دوبارہ آباد ہوگئے .
اور اپنی عمروں کی مدت بھر زندہ رہے لیکن ان لوگوں پر اس موت کا اتنا نشان باقی رہ گیا کہ ان کی اولاد کے جسموں سے سڑی ہوئی لاش کی بدبوبرابر آتی رہی اور یہ لوگ جو کپڑا بھی پہنتے تھے وہ کفن کی صورت میں ہو جاتا تھا. اور قبر میں جس طرح کفن میلا ہو جاتا تھا ایسا ہی میلا پن ان کےکپڑوں پر نمودار ہو جاتا تھا . چنانچہ یہ اثرات آج تک ان یہودیوں میں پائے جاتے ہیں
جو ان لوگوں کی نسل سے باقی رہ گئے ہیں. ( تفسیر روح البیان ) اس واقعہ کا قران مجید میںبھی ذکرموجود ہے۔ یہ عجیب و غریب واقعہ قرآن مجید کی سورۃ بقرہ میں خداوند قدس نے اس طرح بیان فرمایا کہ :. ترجمہ، اے محبوب کیا تم نے نہ دیکھا تھا انہیں جو اپنے گھروں سے نکلے اور وہ ہزاروں تھے موت کے ڈر سے تو اللہ نے ان سے فرمایا مرجاؤ پھر انہیں زندہ فرمادیا بیشک اللہ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے مگر اکثر لوگ ناشکرے ہیں(القرآن : کنزالایمان)۔