ایک اسی سالہ اندھا بھکاری حضرت شیخ سعدی شیرازی ؒ کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے کہہ رہا ہوتا ہے کہ کاش مجھے اتنی تکلیف والی زندگی نہ ملتی،آپؒ دستک سن کر دروازے پر آتے ہیں اور اسے کہتے ہیں کہ آئے تو تم بھیک مانگنے ہو
لیکن یہ کیا بات کر رہے ہو؟ بھکاری نے جواب دیا کہ میں مانگنے نہیں آیا، میرا ایک سوال ہے اس کا جواب چاہیے۔آپؒ نے پوچھا کیا سوال ہے؟ اس نے کہا کہ میری اسی سال عمر ہو گئی ہے لیکن مجھ سے زیادہ بھی بدقسمت کوئی ہو سکتا ہے؟ آپ ؒ نے پوچھا کہ تجھے یہ خیال کیسے آیا کہ تو بدقسمت ہے؟ اس نے کہا کہ میری بدقسمتی کی وجہ یہ ہے کہ میری اسی سال عمر ہے لیکن اتنی عمر گزر جانے کے باوجود بھی دنیا کو دیکھنے سے محروم ہوں، اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے؟ آپؒ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا کہ تم سے بڑا بدقسمت وہ ہے جس کے پاس آنکھوں کی بصارت تو ہے لیکن زندگی میں بصیرت نہیں ہے۔جو لوگ محرومیوں کے باوجود کچھ کر کے دکھاتے ہیں، مغربی معاشرے میں ایسے لوگوں کو بہت پروموٹ کیا جاتا ہے، انہیں بیشمار سہولیات دی جاتی ہیں، وہ سہولیات اچھے روزگار کی صورت میں بھی ہوتی ہیں اور عزت کی صورت میں بھی۔ ہمارے معاشرے کا بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو محرومیوں کے باوجود کچھ کر کے دکھاتے ہیں، ان کو پروموٹ نہیں کیا جاتا۔ ہم سمجھتے ہی نہیں کہ ہمیں جو رزق مل رہا ہے، وہ شاید انھی لوگوں کی وجہ سے مل رہا ہو