حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کو حمص کا گورنر مقرر کیا تو آپ رضی اللہ عنہ دوڑے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور عرضکیا کہ آپ کو خدا کا واسطہ ہے مجھے اس سے محفوظ رکھیں..حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے غصے سے کہا کہ تم خود اس سے بچنا چاہتے ہو.. اللہ کی قسم تمہیں یہ ضرور قبول کرنا پڑے گ
جب حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ گورنر بن کر حمص جانے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی تنخواہ مقرر کرنے سے متعلق رائے لی جس پر آپ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس کی کیا ضرورت ہے بیت المال سے ملنے والے وظیفے سے میرا گزارا ہوجاتا ہے بلکہ بچ بھی جاتا ہے..کچھ عرصے بعد حمص سے دیندار لوگوں کا ایک گروہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ اپنے علاقے کے انتہائی غریب لوگوں کے نام لکھ کر دو تاکہ ان کی بیت المال سے امداد کی جائے.. ان لوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو نام کی فہرست تیار کرکے دی تو آپ نے ایک نام پر دریافت کیا کہ یہ سعید نام کس کا ہے.. ان لوگوں نے جواب دیا کہ یہ ہمارے گورنر ہیں..حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب حیرت سے پوچھا کیا واقعی تمہارے گورنر اتنے غریب ہیں تو ان لوگوں نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ خدا کی قسم! کئی کئی دن گزر جاتے ہیں مگر ان کے گھر میں چولہا نہیں جلتا..یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور بہت روئے.. اس کے بعد انھوں نے ان لوگوں کو ایک ہزار سونے کے سکے نکال کر دیے کہ جاؤ یہ سکے گورنر کو دے دو..
یہ سکے لے کر جب لوگ گورنر حضرت سعید بن عامر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو انھوں نے سکوں پر نظر پڑتے ہی ” اناللہ واناالیہ راجعون” پڑھا اور رونے لگے.. آپ کی شریک حیات نے آکر پوچھا کہ ماجرا کیا ہے تو انھوں نے کہا کہ میرے گھر میں میری آخرت کو تباہ کرنے کے لیے دنیا داخل ہوگئی ہے..اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کے ذریعے وہ تمام سکے غریبوں میں تقسیم کرا دیے..