حضرت ذوالنون مصری علیہ الرحمہ ايک روز نيل کے ساحل کی طرف تشريف لے گئے۔ اس وقت آپ کسی گہری سوچ ميں مگن تھے۔ اچانک آپ نے ايک بہت بڑے بچھو کو تيزی کے ساتھ ساحل کی طرف جاتے ديکھا۔آپ اس کی طرف متوجہ ہو گئے اور اس کے پیچھے پیچھے پانی کے کنارے جا پہنچے۔ آپ نے ديکھا کہ دريا ميں سے ايک مينڈک نکلا،بچھو اس کی پیٹھ پر سوار ہوا اور وہ مينڈک اسے لے کر دريا ميں تيرنے لگا اور دريا پار کر گيا ۔
حضرت ذوالنون مصری بھی ان کے پیچھے پیچھے دريا کے پار چلے گئے۔ آپ جب دوسرے کنارے پر پہنچے تو بچھو مينڈک کی پیٹھ سے اتر کر ايک طرف کو چلنے لگا۔ تھوڑی دير چلنے کے بعد وہ ايک درخت کے نیچے جا پہنچا۔آپ نے ديکھا کہ وہاں ايک نوجوان زمين پر مدہوش پڑا ہوا تھا اور اس کے سينے پر ايک اژدھا اسے ڈسنے کے ليے اپنا پھن پھيلائے جھوم رہا تھا۔ وہی بچھو تيزی کے ساتھ آيا اور اس اژدھے کو ڈنک مار ديا اور واپس چلا گيا۔اس کے ڈنک سے وہ اژدھا مر گيا۔حضرت ذوالنون مصری علیہ الرحمہ نے سوچا کہ يہ نوجوان کوئی عام آدمی نہيں ہے بلکہ اللہ عزوجل کا کوئی خاص بندہ ہے لہذا س کی قدم بوسی کرنی چاہيے۔ آپ اس کی قدم بوسی کے ليے اس کے قريب ہوئے تو اس کے پاس سے شراب کی بڑی سخت بد بو آئی۔آپ حيران ہو گئے کيونکہ وہ ايک شرابی آدمی تھا۔ اتنے ميں غیب سے آواز آئی:اے ذوالنون!حيران کيوں ہوتا ہے”يہ بھی ہمارا ہی بندہ ہے،اگر اللہ عزوجل صرف نيکوکاروں ہی کی حفاظت فرمائے گا تو گنہگاروں کی حفاظت کون کریگا ؟ آپ اس بات سے وجد ميں آ گئے اور کافی دير تک وجد کی کيفيت ميں يہ شعر پڑھتے رہے۔ترجمہ:اے خوش نصيب سونے والے جس کی خود ربِ جہاں ہر طرف سے حفاظت فرما رہا ہے اور تو تاريکی ميں گناہوں ميں متحرک رہتا ہے۔اس بادشاہ کی طرف سے آنکھيں کيونکر غافل ہو جاتيں جو تجھے ہر طرح کی نعمتوں کے فوائد عطا فرما رہا ہے ۔
جب سورج غروب ہونے لگا اور ساحل پر ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چلنے لگی تو اس نوجوان کے بدن ميں حرکت پيدا ہوئی۔ جب اس کا نشہ اترا تو اسے کچھ ہوش آ گیا۔ تھوڑی دير بعد اس نے آنکھيں کھول ديں اور اپنے سامنے حضرت ذوالنون مصری علیہ الرحمہ کو ديکھ کر شرمندہ ہو گيا اور خجالت سے پوچھنے لگا :اے قبلہ عالم !آپ يہاں کيسے ؟ آپ نے فرمايا :اسے چھوڑو،اپنے بارے ميں بتاؤ،تم کون ہو ؟اس نے کہا
: آپ ديکھ ہی رہے ہيں ميں شرابی آدمی ہوں۔ آپ نے فرمايا ـ:ادھر ديکھو۔جب اس نے مرے ہوئے اژدھے کو ديکھا تو اس کے بدن پر لرزہ طاری ہو گيا اور وہ خوف سے کانپنے لگا۔ آپ نے اسے ابتداء سے لے کر انتہا تک سارا واقعہ سنايا تو وہ رو پڑا اور اپنے منہ پر مٹی ملنے لگا اور کہنے لگا :اگر وہ ذات اپنے گناہگاروں کے ساتھ ايسا سلوک کرتی ہے تو نيکو کاروں کو کتنا نوازتی ہو گی۔
يہ کہہ کر جنگل کی طرف چلا گيا اور سخت مجاہدوں ميں مصروف ہو گيا۔ آخر کار ايک وقت ايسا آيا کہ اس کا شماراللہ عزوجل کے مقبول بندوں ميں ہونے لگا۔اللہ عزوجل نے اس پر اتنا کرم فرمايا کہ اگر وہ دور سے بھی کسی بيمار کو دم کر ديتا تو اللہ عزوجل اسے شفا عطا فرما ديتا ۔(حکايات الصالحين ص72)