شہر کا ماحول ایک سا تھا کہ ایک آدمی نے ایک باغ کے جھاڑ جھنکار سے کھجوریں چُنیں ایسی کھجوریں صرف شہر کے اسی باغ میں لگی تھیں لیکن لوگوں کو اس کھجور سے کوئی رغبت نہ تھی کہ اس کھجور میں نہ وہ نرمی تھی نہ اس کا وہ ذائقہ تھا رنگ بھی انتہائی گہرا اور دانہ بہت چھوٹا سا۔وہ غریب آدمی جس کی ناک موٹی آنکھیں چھوٹی رنگت سیاہ چلتا تو ٹانگیں اٹک اٹک جاتیں بولتا تو زبان میں لکنت غربت سی غربت کی
نسلی غلام رہا تھا کھجوریں جھولی میں ڈالیں شہر میں فروخت کرنے کی کوشش کر رہا تھا اس باغ کا یہ آخریپھل تھا جو اس آدمی کی جھولی میں تھا۔ شہر میں لیکن کوئی ان کھجوروں کا طلبگار نہ تھا یہاں تک کہ ایک فرد نے یوں آواز لگائی اے بلال رض یہ کھجور تو تجھ جیسی ہے کالی اور خشک۔دل کا آبگینہ ٹھیس کھا گیا آنکھوں سے آنسو رواں بلال حبشی کھجوریں سمیٹ کر بیٹھ رہے۔ کہ ایسے میں وہاں سے اس کا گذر ہو جو ٹوٹے دلوں کا سہارا ہے جس نے مسکینوں کو عزت بخشی وہ جس کا نام ہے غمزدہ دلوں کی تسکین ہے ہاں وہی محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم آپ نے بلال رضی اللہ عنہ سے سب ماجرہ پوچھا تو آپیوں گویا ہوئےلوگو یہ کھجور “عجوہ“ ہےیہ دل کے مرض کے لیئے شفاء ہےیہ فالج کے لیئے شفاء ہےیہ ستر امراض کے لیئے شفاء ہےاور لوگو یہ کھجوروں کی سردار ہےپھر یہاں بس نہیں کیافرمایا جو اسے کھا لے اسے جادو سے امان ہے۔منظر بدل گیا وہ بلال رضی اللہ عنہ جس کے پاس چند لمحے پہلے تک جھاڑ جھنکار تھا اب رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے غنی کر دیا۔پھر راوی لکھتے ہیں کہ لوگ بلال کی منتیں کرتے اور بلال کسی مچلے ہوئے بچے کی مانند آگے آگے بھاگتے۔تاریخ گواہ ہے کہ وہ جسے کبھی دنیا جھاڑ جھنکار سمجھ رہی تھی بلال رضی اللہ عنہ کی جھولی میں آ کر اورمصطفٰے کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زبان مبارکہ کا صدقہ آج بھی کھجوروں کی سردار ہے۔