اپنی ایک تحریر جو 28جولائی 2015میں شائع ہوئی عالیہ خاکوانی لکھتی ہیں کہ جب امریکہ نے پاکستان کو حملے کی دھمکی دی کہ یا راستہ دو یا جنگ کرو اس وقت پاکستان کی میزائل ٹیکنالوجی ہرگز ڈیولپ نہیں تھی۔نیو کلیئر ہتھیاروں کے لیئے کوئی ڈیلوری سسٹم نہیں تھا کم از کم امریکہ کی حد تک نہیں تھا ۔جہازوں کے ذریعے ایٹمی حملہ خام خیالی ہے طاقت کا توازن بری طرح پاکستان کے خلاف تھا
۔مثلاً اگر صرف ہوائی جہازوں کی بات کی جائے تو پاکستان کے پاس سات یا آٹھ سو جنگی جہاز تھے جبکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے پاس تیس ہزار کے لگ بھگ ۔۔ چین اور روس کی تو گویا لاٹری نکل آئی تھی ۔انکی شدید خواہش تھی کہ امریکہ افغانستان آئے اس لیئے چین اپنی تاریخ میں پہلی بار پاکستان سے اس معاملے میں پیچھے ہٹ گیا تھا ۔انڈیا اور اسرائیل مسلسل امریکہ کو پاکستان پہ حملے کی دعوت دے رہے تھے اور انڈیا اس حملے میں مکمل تعاون کا یقین دلا رہا تھا بے شک اسلا آباد پر گھبراہٹ طاری تھی پاکستان پر ایک ایسی جنگ مسلط ہونی تھی جس میں کروڑوں اموات یقینی تھیں۔یہاں آپ کوئی بھی نعرہ مستانہ لگا سکتے ہیں اور فوراً کہہ دیں گے کہ افغانستان جیسا بے سروسامان ملک نے مزاحمت کی تو ہم کیوں نہیں ؟افغانستان کے پاس کھونے کے لیئے کچھ نہیں تھا ۔یہاں تک کہ پورے افغانستان میں آٹے کی ایک مل تک نہیں ہے صرف چھ جنگی ہیلی کاپٹر افغانستان کا کل اثاثہ تھے جن کو اڑنے کا موقع بھی نہیں ملا ۔دوسری طرف پاکستان ایک بہت بڑی آبادی والا ڈیولپ ملک جس کے پاس نیو کلیئر ہتھیار ہیں ۔بہت سی صنعتیں ہیں اور ایک بہادر اور طاقتور فوج۔ لیکن جب آپکا مقابلہ اتنی بہت سی طاقتوں سے بیک وقت ہو اور جدید جنگی دور میں میزائل ٹیکنالوجی نہ ہو تو دشمن کو آپکی سر زمین پر اترنے کی ضرورت ہی نہیں ہے
انہوں نے صرف اپنے میزائلز اور جنگی ہوائی جہازوں کے ذریعیآپکی اہم تنصیبات خاص طور پر نیو کلیئر پلانٹس ،موٹر ویز،صنعتوں اور فوجی اڈوں کو تباہ کرنا تھا جبکہ آپ کے پاس جواب دینے کے لیئے کچھ نہیں تھا آپ زیادہ سے زیادہ کچھ جنگی جہاز گرا لیتے اور کوئی آپشنز نہیں تھے۔آپکی فوج جتنی بھی بہادر ہو وہ زمین پر کچھ نہ کر پاتی ۔آپکے سب سے جدید جنگی جہاز ایف سولہ
تک امریکہ کے جدید جنگی جہازوں کے مقابلے میں پرانے بلکہ متروک ہو چکے ہیں ۔آپکا واسطہ کسی زمینی فوج سے ہرگز نہیں پڑنے والا تھا انہوں نے اپنے اڈے پھر بھی افغانستان میں ہی بنانے تھے یہاں نہیں ،آپکی فوجی طاقت کو تباہ کر کے انڈیا کے لیئے تر نوالہ بنا لیا جاتا ان سب عوامل کو دیکھتے ہوئے امریکہ کو راستہ دینے کا فیصلہ ہوا۔ اور ساتھ ہی نہایت ہی پراسرار انداز میں
طالبان کے تمام سرکردہ لیڈر غائب ہو گئے امریکہ نے افغانستان کے پہاڑوں سے خوب سر ٹکرایا لیکن کچھ ہی عرصے بعد ان کے خلاف طالبان کی مزاحمت شروع ہوئی جو چند سالوں میں اتنی شدید ہو گئی کہ امریکہ کی چیخیں نکل گئیں ۔اس کے جنگی اخراجات اتنے بڑھ چکے ہیں کہ اس کی معیشت بیٹھنے لگی ہے جس کے نتیجے میں امریکہ نے اپنے عوام سے بہت سی سہولیات واپس لے لی ہیں
جس کی وجہ سے اس کی کم از کم چھبیس ریاستیں اس سے الگ ہونے کی جدوجہد کر رہی ہیں امریکہ کا حال بالکل روس جیسا ہونے والا ہے۔انشااللہ جلد ہی امریکہ نے افغانستان مزاحمت کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ڈھونڈ لیا ۔لیکن اب دیر ہو چکی تھی امریکہ اپنی تاریخ کی سب سے بھیانک غلطی کر چکا تھا ۔افغان مزاحمت کو نہ چین سپورٹ کر سکتا تھا نہ تاجکستان اور ازبکستان ،
جو کہ شمالی اتحاد کے ہمدرد ،دوسرے لفظوں میں امریکہ کے ساتھ ہیں (یہ ٹیٹو والے ازبک دہشت گرد)مجاہدین کی ٹریننگ ،ہتھیاروں کی فراہمی اور ٹھکانے کسی بھی مزاحمتی تحریک کی بنیادی ضروریات ہوتی ہیں اب اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ سب پاکستان اکیلے کرتا رہا۔ اب اس نقطے کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ اگر پاکستان کو احمقانہ انداز میں ایک جذباتی فیصلے کی نذر کر دیتا
تو افغانستان میں کوئی جہاد نہ ہو پاتا نہ پاکستان اس قابل رہتا کہ انڈیا سے ہی خود کو سنبھال سکے۔سب کچھ مٹی کا ڈھیر ہو جاتا ہمارے بزرگوں نے بھی مشکل حالات میں حالات کو سمجھتے ہوئے ایسے معاہدے کیئے جو اس وقت دشمن کی شرائط کے مطابق ہوتے تھے لیکن بعد میں ان کا نتیجہ فتوحات کی صورت میں برامد ہوا۔ اس کا فیصلہ تقریباً ہو چکا ہے کہ وہ مشرف کا صحیح فیصلہ تھا یا غلط
۔میں نے اوپر لکھا ہے کہ اب دیر ہو چکی تھی امریکہ کے لیئے۔۔۔۔۔اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کو راستہ دینے کے ساتھ ہی مشرف نے پاکستان بلکہ دنیا کی تاریخ کی تیز ترین میزائل ڈیویلپمنٹ شروع کی ذرا یاد کریں وہ دن جب امریکہ کے حملے کے فوراً بعد پاکستان ہر دوسرے تیسرے دن ایک میزائل تجربہ کر رہا تھا یہاں تک کہ ایک دن پرویز مشرف نے ایسا اعلان کیا کہ
”ہم انڈیا کے علاوہ بھی بہت سے ملکوں کو ہٹ کر سکتے ہیں ”جس پر امریکہ میں بڑی لے دے ہوئی کہ پاکستان کن ملکوں کو ہٹ کرنے کی بات کر رہا ہے ؟پرویز مشرف نے فرانس کے ساتھ ملکر آگسٹا آبدوز پراجیکٹ شروع کیا اور اس کی تکمیل کی۔یہ پراجیکٹ پاکستان کو سیکنڈ سٹرائیک کیپیلیٹی دیتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں ایٹمی میزائل فٹ کیئے جا سکتے ہیں
جو زیر سمندر چار سو میٹر نیچے سے کسی ملک پر ایٹمی حملہ کر سکتے ہیں یعنی اگر دشمن آپ پر ایٹمی حملہ کرنے میں پہل کر لے اور خدانخواستہ آپکے سارے زمینی تنصیبات تباہ ہو جائیں تو آپ دشمن پر سمندر سے ایٹمی حملہ کر سکتے ہیں اگر آُپکا اس طرح کا آبدوزسمندر میں پھر رہا ہو تو دشمن آپ پر حملے کی جرات نہیں کرے گا اللہ کے فضل سے اس وقت کم از کم
ہمارے تین آگسٹا آبدوز سمندر پر راج کر رہے ہیں ۔پرویز مشرف نے ڈاکٹر عبدلقدیر کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کیا بلکہ اے ای اے کی ڈاکتر عبد القدیر سے ملاقات کی اپیل بھی مسترد کر دی جبکہ پوری دنیا کے سامنے ثابت ہو چکا تھا کہ ڈاکٹر صاحب نے ایران ،لیبیا اور شمالی کوریا کو ایٹمی معلومات اور سامان دیا امریکہ یا آئی اے ای اے نے ڈاکٹر خان کو
سزا نہیں دینی تھی بلکہ وہ اس سے اہم نوعیت کی معلومات حاصل کرتے۔جس سے پاکستان سمیت ایران اور شمالی کوریا کا ایٹمی پروگرام خطرے میں پڑ جاتا (جبکہ ہماری ایک جمہوری لیڈر نے اعلان فرما دیا تھا کہ وہ امریکہ کو رسائی دے دیں گی نتائج کی پرواہ کیئے بغیر ) بحر حال عوام کے سامنے ٹی وی پر ایک ٹوپی ڈرامہ ہوا اور بس امریکہ کے ہاتھ کچھ نہیں آیا
،مشرف نے لارے دینے کے باوجود اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ۔جس وقت پاکستان زبردست دبائو میں تھا مشرف نے یہ لارا دیا تھا جس پر اسرئیل خوش تھا کیونکہ اسرائیل کا اگر پاکستان میں اپنا سفارت خانہ بن گیا تو وہ تباہی مچا سکتا ہے ۔لیکن جیسے ہی حالات کچھ نرم ہوئے تو اسرائیلی ریاست کوتسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا ۔مشرف نے گوادر پراجیکٹ پر تیز رفتار کام شروع کیا
جو امریکہ کی موت ہے۔اس پرا جیکٹ کی وجہ سے چین کو خلیجی ریاستوں تک امریکی دست برد سے محفوظ ایک راستہ مل جائے گا ۔اس کی کافی لمبی تفصیل ہے کہ اس سے امریکہ کو کیا نقصانات ہو سکتے ہیں ۔لیکن مشرف کے ہٹائے جانے کی ایک بڑی وجہ اس کا چین کے ساتھ مل کر گوادر پراجیکٹ پر کام کرنا بھی تھا مشرف دور میں پاکستان نے بہت عرصہ بعد پہلی بار باوجود
امریکی مخالفت کے ایران سے اپنے تعلقات ٹھیک کیئے اور اس کا نتیجہ پاک ایران انڈیا گیس پائپ لائن کی صورت میں برامد ہوا ۔جس پر انڈیا کو تقریبا قائل کیا جا چکا تھا اس پائپ لائن کے نتیجے میں انڈیا کی کم از کم چالیس فیصد ضروریات پوری ہوتیں ۔اس کا مطلب انڈیا کی ایک بہت بڑی کمزوری ہمارے ہاتھ میں ہوتی جب بھی وہ پانی بند کرتا ہم اسکی گیس بند کر دیتے ۔۔۔
لیکن بعد میں آنے والی جمہوری حکومت اپنے جمہوری جھگڑوں میں پڑ گئی اور وہ معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔چاہے آپ پرویز مشرف کو امریکی ایجنٹ کہیں یا جو بھی لیکن یہ ایک حقیقت ہے اور اس کو اعدادو شمار سے بھی ثابت کیا جا سکتا ہے کہ اگر امریکہ کو اس دو سو سالہ تاریخ میں سب سے زیادہ نقصان پہنچایا تو وہ مشرف ہی ہے ۔وہ مشرف جس پر سب سے زیادہ
لعن طعن امریکہ کے ساتھ دوستی یا اس کی پالیسیوں کی وجہ سے ہوتی ہے ،وہ مشرف کس قدر ذہین اور محب الوطن ہے یہ ہم جیسے بے وقوف جانیں یا نہ جانیں لیکن ہمارا دشمن ضرور جانتا ہے جو دشمن کی بھی ذہانت اور حب الوطنی کی قدر کرتا ہے ۔