اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان پر کئی بار دشمنوں نے بری نظر ڈالی، ہمیں نیچا دکھانے کی کوشش کی مگر سب پر اچھے سے واضح ہو گیاکہ ہم وہ لوہے کا چنا ہیں جو آسانی سے کسی کا تر نوالہ نہیں بن سکتے ۔ حریت اور آزادی سےپیا ر ہمیں ہمارے خون میں ملا ہے ۔ کئی سو برس ہمارے ساتھ رہنے والی اور اکھنڈ بھارت کا نعرہ جپنے والی ہندو قوم جسے آج بھی پاکستان ہضم نہیں ہو سکا،
اس نے کئی بار پاکستان کی خود مختاری اور آزادی پر حملہ کرتے ہوئے ہماری پشت میں خنجر گھونپنے کی کوشش کی مگر شاید وہ جانتی نہیں تھی کہ افواج پاکستان ہر دم ہر آن چوکس رہتی ہیں ، نتیجہ سب کے سامنے تھا ۔انہیں منہ کی کھانی پڑی ۔ دشمن ملک کے ساتھ ہونے والی جنگوں میں وطن عزیز کے کچھ بہادر سپاہی تو ایسے بھی تھے جن کی بہادرری کو دشمن ملک نے بھی تسلیم کیا ۔ بہادری کے جوہر دکھانے والے ان سپوتوں کو حکومت پاکستان نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شجاعت سے منسوب پاکستان کے سب سے اعلیٰ اعزاز ’’نشان حیدر‘‘ سے نوازا ۔ نشان حیدر پانے والے اُ ن جری جوانوں کی تعداد اب تک 11ہے۔ یہ اعلیٰ ترین فوجی اعزازجنگوں کے دوران دشمن افواج سے چھینے گئے اسلحے کی دھات سے بنایا جاتا ہے۔ سب سے پہلا نشان حیدر ستائیس جولائی انیس سو اڑتالیس کو دشمن کے عزائم خاک میں ملانے والے کیپٹن محمد سرور شہید کو دیا گیا۔سات اگست انیس سو اٹھاون کو میجر طفیل مشرقی پاکستان میں جام شہادت نوش کر کے نشان حیدر کے حق دار قرار پائے۔1965کی جنگ میں میجر عزیز بھٹی نے دشمن کیخلاف داد شجاعت دیتے ہوئے جام شہادت نوش کیا اور نشان حیدر پایا۔جام شہادت نوش کرنے والے پاک فضائیہ کے پائلٹ افسر راشد منہاس، بری فوج کے میجر شبیر شریف، جوان سوار محمد حسین، میجر محمد اکرم اور لانس نائیک محمد محفوظ نے بہادری کی داستانیں رقم کیں اور نشان حیدرسے سرفراز ہوئے۔انیس سو ننانوے میں کارگل میں بہادری سے جان جان آفریں کے سپرد کرنے والے قوم کے سپوتوں شہید کیپٹن شیر خان اور حوالدار لالک جان کو نشان حیدر سے نوازا گیا۔