اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)دنیا کے وہ دو خوش قسمت ترین افراد جو نبی کریمﷺ کی قبر مبارک تک پہنچے اور دل کھول کر زیارت کی، دنیا کا وہ واحد شخص جس کیلئے 12ربیع الاول کو روضہ رسولﷺ کے دروازے کھول دئیے گئے، حجرہ مبارک میں موجود محراب فاطمہ میں سجدہ، محراب کو چومتے رہے، قبر مبارک کے درمیان حائل سبز پردے کو تھام کر درودو سلام کا ورد، آنکھوں سے
آنسوئوں کی جھڑی رواں رہی، یہ تین افراد کون ہیں؟ ایسی معلومات جو آپ کو معلوم نہیں ہو گی۔ تفصیلات کے مطابق دنیا کا کوئی ایسا مسلمان نہیں جس کی خواہش نہ ہو کہ وہ نبی کریمﷺ کی قبر مبارک کی زیارت کر لےمگر دنیا کے صرف چند ہی ایسے افراد ہیں جن کو روضہ رسول میں داخل ہونے کی سعادت حاصل ہو سکی ہے ان میں پاکستان کے سابق صدر جنرل ضیا الحق بھی ہیں جن کو ایک ہی دن میں روضہ رسول ﷺ میں متعدد مرتبہ داخلے کی اجازت ملی۔ایسے ہی ایک شخص اور بھی ہیں جنہیں تاریخ میں پہلی مرتبہ 12ربیع الاول کو روضہ رسول ﷺ میں داخلے کی اجازت دی گئی ، یہ کوئی اور نہیں بلکہ چیچنیا کے صدر رمضان قدیروف ہیں۔ چیچن صدر جیسے روضہ رسولﷺ میں داخل ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسوئوں کا سیلاب رواں ہو گیا، ہچکیاں تو جالیوں کے سامنے ہی بندھ چکی تھیں، چیچن صدر محراب فاطمہ کے سامنے پہنچے تو بے اختیار رب تعالیٰ کے حضور محراب میں سجدہ ریز ہو گئے ، قبر مبارک کے درمیان حائل سبز پردےکو تھام کر رمضان قدیروف درودو سلام کا ورد کرتے رہے ۔ تاریخ میں پہلی بار روضہ رسولﷺ کی رمضان قدیروف کے وہاں داخلے کے موقع پر اندر کی عکس بندی کی گئی اور یہ تصاویر اور عکس بندی میڈیا کو فراہم کی گئی۔ قارئین کرام رمضان قدیروف وہ پہلے شخص ہیں جنہیں روضہ رسول ﷺ میں داخلے کی
اجازت 12ربیع الاول کو دی گئی تاہم دنیا میں دو ایسے لوگ بھی گزرے ہیں جنہوں نے سبز پردے کے پیچھے موجود کئی دیواروں کے بعد موجود قبر مبارک کی زیارت کی ہے ۔ان میں سے ایک شخص تاریخی روایات کے مطابق 91ہجری میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کے غلام کو یہ سعادت حاصل ہوئی جبکہ 881ہجری میں معروف مؤرخ علامہ سمودی کے بیان کے مطابق وہ خود قبرمبارک
تک پہنچے اور زیارت فرمائی۔ قارئین کرام یہاں آپ کے علم میں یہ بات بھی لائی جا رہی ہے کہ دنیا میں آج تک نبی کریم ﷺ کی قبر اطہر کی کوئی بھی تصویر موجود نہیں اور سوشل میڈیا پر سامنے آنیوالی تمام تصاویر غلط اور جھوٹی ہیں ۔ یہاں ہم آپ کے علم میں یہ بات بھی لاتے چلیں کہ نبی کریمﷺ کی قبر مبارک تک کوئی پہنچ ہی نہیں سکتا کیونکہ نبی کریم ﷺ کے روضہ میں جو سبز پردہ
ان کی قبر مبارک کے آگے حائل ہے اس کے پیچھے چار دیواریں اور پھر ایک دیوار موجود ہے یعنی پانچ دیواریں ہیں جن میں کوئی دروازہ نہیں اور اس کے پیچھے نبی کریم ﷺ کی قبر مبارک اپنے دو صحابہؓ امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ کی قبور کے ہمراہ موجود ہے۔ ساڑھے پانچ صدیوں سے کوئی بھی شخص آپﷺ کی قبر مبارک تک نہیںجا سکا ہے۔ آپ ﷺ اور
صحابہ کرامؓ کی قبور مبارکہ کے گرد ایک چار دیواری موجود ہے جس سے متصل ایک اور دیوار موجود ہے جو کہ پانچ دیواروں پر مشتمل ہے ، یہ پانچ کونوں والی دیوار حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے تعمیر کروائی اور اس کے پانچ کونے رکھنے کا مقصد اسے خانہ کعبہ کی مشابہت سے بچانا تھا، اس پانچ دیواری کےگرد ایک اور پانچ دیواروں والی فصیل ہے ، اس پانچ دیواروں والی فصیل
پر ایک بڑا سا پردہ یا غلاف ڈالا گیا ہے ، یہ سب دیواریں بغیر دروازے کے ہیں اور کسی بھی شخص کے ان دیواروں کے اندر جانے کا کوئی امکان نہیں ہے، روضہ رسولﷺ کی اندر سے زیارت کرنیوالے بھی اس پانچ کونوں والی دیوار پر پڑے پردے تک ہی جا پاتے ہیں ، روضہ رسولﷺ کی زیارت کیلئے آنے والے زائرین جب روضہ رسولﷺ کی جالیوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں
تو جالیوں کے سوراخوں سے انہیں بس وہ پردہ ہی نظر آرہا ہوتا ہے جو حجرہ شریف ﷺ کی پانچ دیواری پر پڑا ہوا ہے۔ اس طرح درودو سلام پیش کرنیوالے اور نبی کریمﷺ کی قبر اطہر کے درمیان گو کے چند گز کا فاصلہ ہوتا ہے لیکن درحقیت درمیان میں کل چار دیواریں حائل ہوتی ہیں۔ ایک سنہری جالیوں والی دیوار ، دوسری پانچ کونوں والی دیوار، تیسری ایک اور پنچ دیواری اور
چوتھی وہ دیوار جو کہ اصل حجرے کی دیوار تھی۔ گزشتہ 1300سو سال سے اس پانچ دیواری حجرے کے اندر کوئی نہیں جا سکا سوائے دو مواقعوں کے جن کا ذکر ہم پہلے ہی کر چکے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کا روضہ مبارک ایک بڑے ہال کمرے میں ہے، بڑے ہال کمرے میں جانے کا دروازہ، مشرق کی جانب ہےیعنی جنت البقیع کی سمت ، یہ دروازہ صرف خاص شخصیات کیلئے کھولا جاتا ہے،
اس دروازے سے اندر داخل ہوں تو بائیں جانب حضرت فاطمۃ الزہرہؓ کی محراب ہے، اس کے پیچھے آپؓ کی چارپائی جسےسریع کہا جاتا ہے وہ ہے، العربیہ ویب سائٹ نے محقق معین الدین الہاشمی کے حوالے سے بتایا کہ ہال کمرے میں روضہ رسولﷺ کی جانب جائیں تو سبز غلاف سے ڈھکی ہوئی ایک دیوار نظر آتی ہے 1406ہجری میں اس غلاف کو تبدیل کیا گیا تھا، اس سے
قبل ڈھانپا جانیوالا پردہ، 1370ہجری میں شاہ عبدالعزیز آل سعود کے زمانے میں تیار کیا گیا تھا، مذکورہ دیوار 881ہجر ی میں اس دیوار کے اطراف تعمیر کی گئی جو 91ہجر ی میں حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے تعمیر کی تھی۔ اس بند دیوار میں کوئی دروازہ نہیں ہے ، قبلہ کی سمت اس کی لمبائی 8میٹر، مشرق اور مغرب کی سمت 6اعشاریہ پانچ میٹر اور شمال کی جانب دونوں دیواروں کی
لمبائی ملا کر 14میٹر ہے ، کہا جاتا ہے کہ 91ہجری سے لیکر 881ہجری تک کوئی بھی شخص آپﷺ کی قبر مبارک کو نہیں دیکھ پایا، اس کے بعد 881ہجری میں حجرہ مبارک کی دیواروں کے بوسیدہ ہو جانے پر ان کی تعمیر نو کرنا پڑی، اس وقت نامور مؤرخ اور فقہی علامہ نور الدین ابو الحسن مدینہ منورہ میں موجود تھے جنہیں ان دیواروں کی تعمیر نو کے کام میں حصہ لینے کی
سعادت حاصل ہوئی، وہ لکھتے ہیں کہ 14شعبان 881ہجری کو پنج دیواری مکمل طور پرڈھادی گئی ، دیکھا تو اندرونی چار دیواری میں بھی دراڑیں پڑی ہوئی تھیں، چنانچہ وہ بھی ڈھا دی گئی ، اب ہماری آنکھوں کے سامنے مقدس حجرہ تھا، مجھے داخلے کی سعادت ملی، میں شمالی سمت سے داخل ہوا، خوشبو کی ایسی لپٹ آئی جو زندگی میں کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی، میں نے رسول اللہﷺ اور
آپ ؐ کے دو خلفاؓ کے حضور ادب سے سلام پیش کیا، مقدس حجرہ مربع شکل کا تھا، اس کی چار دیواری سیاہ رنگ کے پتھروں سے بنی تھی جیسے خانہ کعبہ کی دیواروں میں استعمال ہوئے ہیں۔ چار دیواری میں کوئی دروازہ نہیں تھا، میری پوری توجہ تین قبروں پر مرکوز تھی، تین تقریباََ سطح زمین کے برابر تھیں، تینوں سطح زمین کے برابر ہونے کی وجہ سے ایک جگہ ذرا سا ابھار نظر آتا تھا،
یہ شاید حضرت عمرؓ کی قبر تھی، قبروں پر عام سی مٹی پڑی تھی، اس بات کو پانچ صدیاں بیت چکی ہیں، جس کے دوران کوئی انسان ان بند اور مستحکم دیواروں کے اندر داخل نہیں ہوا، الصمہودی نے حجرہ نبیﷺ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے ، وہ لکھتے ہیں کہ اس کا فرش سرخ رنگ کی ریت پر مبنی ہے، حجرہ نبیﷺ کا فرش مسجد نبویؐ کے فرش سے 60سینٹی میٹر نیچے ہے،
حجرہ کی چھت ختم کر کے اس کی جگہ لکڑی کی ٹیک کی چھت نصب کی گئی جو حجرہ پر لگی جالیوںکی طرح ہے، اس لکڑی کے اوپر ایک چھوٹا سے گنبد تعمیرکیا گیا جس کی اونچائی 8میٹر ہے، اور یہ گنبد خضریٰ کے عین نیچے واقع ہے، یہ تمام معلومات معروف کتاب وفا الوفاباغ پائے دار مصطفیٰﷺ کے مؤلف الصمہودی نے اپنی تصنیف میں درج کی ہیں۔ مسجد نبویؐ ، حجرہ شریف اور
قبر مبارک کے حوالے سے یہ کتاب مستند حوالہ سمجھی جاتی ہے، یہاں تک کہ وکی پیڈیا میں روضہ اطہر ﷺ سے متعلق درج تمام تفصیلات بھی اسی سے اخذ شدہ ہیں، علامہ الصمہودی کی وفات 911ہجری میں ہوئی، 881ہجری اور 1477عیسوی سے لیکر اب تک تقریباََ ساڑھے پانچ سو سال کے عرصے میں کوئی انسان آنحضورﷺ کی قبر مبارک کی زیارت نہیں کر سکا،
جہاں تک چیچن صدر رمضان قدیروف کو لے جایا گیا وہاں سے آگے مزید چار دیواریں اور ہیں ، اس لئے کسی بھی شخص کا جانا اور پہنچنا کوئی عام بات نہیں ہو گی ۔ قارئین کرام نبی کریمﷺ سے عشق و محبت ہر مسلمان کے ایمان کا لازمی جزو ہے تاہم اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ نبی کریمﷺ سے وابستہ کسی بھی چیز کی سب سے پہلی تصدیق کر لینی چاہئے، یہاں یہ بات بھی قبل ذکر
ہے کہ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے حاصل ہونیوالی کئی چیزیں جیسے کہ تلوار اور قبر مبارک کی تصویر وغیرہ کو ہم لوگ تصدیق کے بغیر ہی مان لیتے ہیں تو ایسا نہ کیا جائے ، جبکہ اس طرح کی چیزوں کو اہمیت دینے کے بجائے اگر ہم سنت رسولﷺ کو زیادہ اہمیت دیں اور آپؐ کے احکامات اور تعلیمات پر عمل کریں تو اس سے نہ صرف ہماری زندگیوں میں انقلاب برپا ہو گا بلکہ سنت رسولﷺ کی فیوض و برکات ہماری اخروی زندگی کے سفر میں بھی ہمارے کام آئیں گی۔