آج سے چند سال قبل وطن عزیز پر دہشتگردی کے سائے ہر طرف منڈلاتے پھر رہے تھے ، چھپا ہوا دشمن جب چاہتا پاک دھرتی کو خون میں نہلا دیتا، ہر طرف چیخ و پکار، اپنوں کے بچھڑنے کا ماتم، غم و غصہ دکھائی دیتا تھا۔ پاک فوج نے وطن عزیز کو دہشتگردی کے چنگل سے نکالنے کا فیصلہ کر لیا تھا، پاک فوج کے بڑے اور ذہین دماغ سر جوڑ کر بیٹھ چکے تھے اور پھر ایک منصوبہ تیار کر لیا گیا۔
فوج کو تیار رہنے کا حکم مل چکا تھا ۔ پاک فوج کے شیر سوات میں وطن سے محبت کی قسم کا حق پہلے ہی ادا کر چکے تھے اور اب پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اس دشمن کے مقابلہ کا وقت آچکا تھا جو سامراجی طاقتوں کے ٹکڑوں پر پلتے ہوئے وطن عزیز کے اندر خون کی ہولی کھیلنے میں مصروف تھا۔ پاک فوج کے دستوں کو وزیرستان میں داخل ہونے کے احکامات جاری ہو چکے تھے۔ آپریشن کمانڈر نے افسران کو بریفنگ دی اور کانفرنس روم نعرہ تکبیر کے نعروں سے گونج اٹھا ، پاک فوج کے جوانوں کے ساتھ اس کے افسران کا بھی جذبہ دیدنی تھا۔ آج دشمن نے اس قوم کو للکارا تھا جو صلاح الدین ایوبی، محمود غزنوی ، محمد بن قاسم اور ٹیپو سلطان کی وارث تھی اور اسلام کے ان جری سواروں کی حق وراثت ادا کرنے کا وقت آن پہنچا تھا۔ وزیرستان میں پاک فوج نے چھپے ہوئے بزدل دشمن کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا تھا۔ چومکھی لڑائی وہ بھی کبھی جنگلوں، کبھی پہاڑوں ، کبھی دریائوں ، کبھی چٹانو ں اور کبھی گلی کوچوں میں شروع ہو چکی تھی۔ پاک فوج کے جوان دشمن کو رگیدرہے تھے، گھائو لگا رہے تھے ۔ وزیرستان کو دہشتگردوں سے پاک کرنے کے بعد قبائلی علاقہ وادی تیراہ پاک فوج کا اگلا ہدف قرار پایا۔پاک فوج کے دستے حکم کے منتظر تھے اور شہادت ہے مطلوب ِ مقصود مومن کو سچ کر دکھانے کا جذبہ لئے ہوئے میدان عمل میں کود پڑے۔
پاک فوج کے ان دستوں میں کیپٹن حافظ عمر فاروق سلیمان بھی تھے، دشمن آج بھی ان کو شیر خان کے نام سے جانتا ہے۔ وادی تیراہ کو دہشتگردوں سے پاک کرنے کا ٹاسک کیپٹن حافظ عمر فاروق سلیمان کو سونپا گیا۔ وادی تیراہ کا دشوارترین محاذ جنگ ہے ۔اسکی خالہ بھی پیار سے اسکو شیر خان ہی کہا کرتی تھی ،اسکی آنکھوں میں اسلاف کا سرمہ تھا ،سینہ قرآن سے منور تھا ،وہ کوئی بھی
قدم اٹھاتا اسکی ہر چال میں بانکپن ،خوف سے بے نیازی اور حرمت کردار کا ولولہ چھلکتا تھا ۔ کیپٹن حافظ عمر فاروق جب بھی گھر آتے،والد کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرنے جاتے ،ان کے والد نے انہیں ایک نصیحت کررکھی تھی جس کو وہ اپنے ہر عمل میں قائم رکھتے تھے ۔والد کا کہنا تھا ’’ بیٹے میرے سفید کپڑوں پر کبھی داغ نہ لگنے دینا ،اگر داغ لگ گیا تو میرے مرنے پر بھی نہیں دھلے گا ‘‘
عمر فاروق جب آئی ایس ایس بی امتحان دے رہے تھے توانٹرویو کے وقت ایک بریگیڈئر نے ان سے یہ سوال کیا تھا’’ کیا تمہارے والد نے تمہیں کبھی کوئی نصیحت کی ہے‘‘ عمر فاروق نے پورے عزم کے ساتھ کہا’’ سر میرے والد کی ایک نصیحت ایسی ہے جو میں اپنا خون دیکر بھی پوری کروں گا ‘‘ بریگیڈئر نوجوان عمر فاروق کے منہ سے اسکے والد کی نصیحت سن کر بولے
’’ تمہیں یہ سب جذباتی باتیں نہیں لگتیں ‘‘عمر فاروق نے ترنت کہا’’ سر جذبہ زندہ رہنا چاہئے ،یہ مر جائے تو انسان زندہ ہوتے ہوئے بھی مرجاتا ہے ۔میری فوج میں تو جذبہ ہی سب سے بڑی قیمتی چیز ہے سر ‘‘۔تیراہ میں پاک فوج نے امن کے جھنڈے لہرا دئیے تھے لیکن ابھی تک کچھ علاقوں پر شرپسندوں کا قبضہ تھا ۔سندانہ کا ایک مورچہ ابھی تک شرپسندوں کے قبضہ میں تھا اور
یہ بڑا چیلنج کیپٹن عمر فاروق نے قبول کررکھا تھا کہ وہ جب تک اسکو فتح نہیں کرلیں گے چین سے نہیں بیٹھیں گے ۔ کیپٹن عمر فاروق نے تین بار کامیاب آپریشن کرکے اسکا قبضہ حاصل کیا لیکن تینوں بار دشمن بھی اس کو چھڑوانے میں کامیاب ہوگیا تھا پھر انہیں تائید غیبی ملی اور چوتھے معرکہ میں کیپٹن عمر فاروق نے دشمنوں کی جڑیں ہی کاٹ ڈالیں۔ اس بار جب انہوں نے پاکستان کا
پرچم مورچے پر لہرایا تو پھر اسکو کوئی آنچ نہ آسکی ۔یہ سبز ہلالی پرچم جو اس مورچے پر لہرارہا تھا دشمنان پاکستان کے سینے پر ڈستا رہتاتھا ۔ان کا کوئی حربہ کامیاب نہ ہوا تو ایک روز بزدل دشمن اس سڑک کے کنارے بارودی سرنگ بنانے میں کامیاب ہوگئے جہاں سے کیپٹن عمر فاروق گزر کر اس پورے علاقے کی نگرانی کیا کرتے تھے ۔دشمنوں کا حربہ کامیاب ہوا اور
کیپٹن حافظ عمر فاروق اپنے تین سپاہیوں سمیت بارودی سرنگ پھٹنے سے شہادت سے سرفراز ہوگئے ۔دشمن نے اپنی بدترین شکست کا بدلہ تو لے لیا لیکن وہ پاک سرزمین کے اس مورچے کا قبضہ پھر کبھی نہ لے سکے ۔کیپٹن عمر فاروق نے اس محاذ کو خود چنا تھا ۔لگتا تھا انہیں جیسے اپنی جائے شہادت کا علم تھا ۔ جب سے اے پی ایس کا واقعہ ہوا تھا وہ خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتے تھے ۔
دعا کرتے کہ کاش انہیں ان بزدلوں کی کمین گاہ میں بھیجا جائے جنہوں نے معصوم بچوں کو بے دردی سے شہید کیا تھا ۔دعا مستجاب ہوئی۔وہ جب وزیرستان میں پہنچے تو انہوں نے کئی اہم آپریشن کئے اور اے پی ایس سے جڑے دہشت گردوں کو ان کی کمین گاہوں سے نکال کر مارا ۔وہ جب بھی انہیں پکڑتے ،ان کے سینے پر سوار ہوجاتے اور شیر کی طرح بے چین ہوکر گرجتے ۔
انکی للکار اور دھاڑ سن کر دشمن کہتے کہ یہ تو شیر کا بچہ ہے ۔وزیرستان سے غازی ہوکر جب وہ گھر آئے تو والدہ نے میدان جنگ میں دشمن سے مقابلہ کرتے ہوئے بیٹے کی کیفیات کا احوال پوچھا تو اپنی والدہ سے کہا’’امی جب میں ان بزدلوں کو پکڑتا تو انہیں کہتا کہ بے غیرتو تم وہی ہو جنہوں نے اے پی ایس پر حملہ کرکے معصوم بچوں کو قتل کیا ،آو میرا مقابلہ کرو ،میں تمہیں بتاوں گا
کہ بہادرماوں کے بیٹے کیا ہوتے ہیں، تم بزدل ہو ۔تم اسلام کے نام پر کلنک ہو ،اواور میرا مقابلہ کرو اور دیکھو میری رگوں میں کس کا خون ہے ،میں بھی دیکھوں کہ تمہاری رگوں میں کیا دوڑتا ہے‘‘ والدہ بیٹے کے چہرے پر جوش ایمان دیکھ کر پوچھتیں ’’ بیٹے تمہیں ڈر نہیں لگتا موت سے ‘‘وہ ہنستے اور کہتے ’’ موت سے کیا ڈر نا ،جب ہم میدان جنگ میں جاتے ہیں اور نعرہ تکبیر بلند کرتے ہیں امی ۔۔۔
تو موت ہم سے دور بھاگتی ہے ۔ہم اور آگے بڑھتے ہیں اور موت اور آگے دوڑتی ہے ۔‘‘کیپٹن حافظ عمر فاروق بچپن سے سرفروش تھے ۔نماز اور اورادو وظائف بھی کرتے۔ان کے والدمحمد سلمان صوفی باصفا ہیں ۔ایمان کی روشنی سے ان کا چہرہ منور ہے ۔ سرخ ریش مبارک اور پیرانہ سالی میں ان کا جذبہ حب الوطنی جوان ہے ۔انہیں اپنے بیٹے کی شہادت پر بے پناہ فخر ہے ۔
محمد عمرفاروق سلیمان جو19جنوری 1991 میں واہ کینٹ میں پیدا ہوئے ،ایف جی پبلک سکول سے پرائمری پاس کی تو والد کے دل میں بیٹے کو حافظ قرآن بنانے کی امنگ پیدا ہوئی ۔انہوں نے بیٹے کو جامعہ مسجد واہ کینٹ میں داخل کرا یا تو عمر فاروق نے دوسال میں نہ صرف قرآن پاک حفظ کرلیا بلکہ قرآت و نعت خوانی میں بھی کمال حاصل کرلیا ۔دینی تعلیم نے ان کے جذبہ ایمانی کو
اوربڑھادیا۔ حفظ کے بعد ایف جی پبلک سکول سے میٹرک کیا اور پھر انیس سال کی عمر میں فوج میں کمیشن کے لئے اپلائی کردیا اور منتخب ہوکر بارہ مئی دو ہزار دس کو پی ایم اے کاکول جوائن کرلی ۔کیپٹن حافظ محمد عمر فاروق ایک قوی جذبے سے فوج میں آئے تھے ۔ان کا مطمع ہی شہادت تھا ۔امی ابو اور بھائی کے ساتھ جب وہ کاکول پہنچے تو والدہ نے اس وقت ہی انہیں کہہ دیا تھا
’’بیٹا میں تمہیں اسلام اور وطن کے لئے وقف کررہی ہوں ‘‘ ماں نے اس وقت تو بہت بڑی بات کہہ دی تھی اور کسی ماں کے لئے ایسا سوچنا کوئی عام بات نہیں ۔ماں کی آزمائش کا وقت دوہزار پندرہ کی بارہ اگست کو اس وقت آیا جب اسکو اپنے عہد کی سچائی کو نباہنا تھا ۔ شہادت کی خبر گھر پہنچی،ماں نے سنا تو رنج سے سینہ پھٹنے کو آگیا لیکن جب شہید بیٹے کے بھائی عثمان سلیمان نے یاد کرایا
’’ امی اب کیوں دل گرفتہ ہیں ۔ یاد ہے آپ نے جب عمر کو پی ایم اے کاکول میں چھوڑا تھا تو کہا تھا کہ یہ بیٹا وطن کو دے دیا ہے ،بیٹا وطن پر قربان کردیا ہے ،امی آپ نے تو بیٹا پانچ سال پہلے ہی قربان کردیا تھا ،وہ اب شہید ہوا یا پانچ سال پہلے ،بات تو ایک ہے ۔‘‘ماں نے سنا اور اپنے اللہ سے کئے عہد پر قائم ہوگئیں ۔ممتاکے زخمی دل کو ضبط سے سیا اور کہا ’’ ہاں جب میں عمر کو بیٹے کے
رشتے سے دیکھوں تو شاید دوسرا سانس بھی نہ لے سکوں گی مگر اے میرے اللہ تیرا شکر ہے ، کہ تو نے مجھے یہ انعام دیا۔میں اب ایک شہید کی ماں ہوں ۔شہادت جیسے انعام کو دیکھتی ہوں تو شکر ادا کرتی ہوں کہ الحمد اللہ رب العالمین تو نے مجھے چنا ،میری کوکھ کو چنا ،میری گود میں جنم لینے لینے والے کو چنا ۔رب کائنات تیرا شکر کہ تو نے مجھے عظیم ماں بنا دیاہے ‘‘ کیپٹن حافظ عمر فاروق
جب کاکول میں داخل ہوئے تو انکی مقبولیت پورے کالج میں ہوگئی تھی ۔قرآت اور نعت خوانی میں کوئی ان سے بڑھ کر نہ تھا۔جب بھی کوئی وفد آتایا تقریب ہوتی ،سب عمر کو پکارتے اور ان سے تلاوت و نعت سنتے ۔کیپٹن حافظ عمر فاروق کا یہ معمول اگلے مورچوں میں بھی قائم رہا۔
اللہ اور رسول اللہ ﷺ سے گہرے تعلق نے انکی روحانی قدریں بڑھا دی تھیں ۔ شہادت سے چند دن پہلے عمر فاروق شہید کے والد محمد سلیمان نے ایک خواب دیکھا کہ ان کا بیٹا محاذ جنگ پر موجود ہے ۔اس نے پہلے ایک پرچم مورچے پر لگایا اور جب دوسرا لگانے لگا تو ا س سے نہیں لگا ،وہ دریافت کرنے لگے کہ بیٹے کیا بات ہے تم سے دوسرا پرچم کیوں نہیں لگ پارہا ،
کیپٹن عمر فاروق نے جواب دیا’’ ابو میں نے یہ مورچہ تین بار دشمنوں سے چھینا ہے اور تینوں بارہی دشمنوں نے مورچہ واپس لیا ہے ،میں نے چوتھی بار جب مورچہ دشمن سے چھینا ہے تو اب یہ پرچم لگایا ہے ‘‘یہ پرچم جو کیپٹن حافظ عمر فاروق نے دشمن سے سخت مقابلہ کرتے ہوئے مورچے پر لہرایا تو حقیقت میں بھی اسکو تعبیر مل گئی ۔یہ واقعہ عین اسی طرح رونما ہواجیسا انکے
والد بزرگوار نے خواب میں دیکھا تھا ۔اس خواب کو دیکھنے کے بعد انہیں اپنے بیٹے کی شہادت کا یقین ہوگیا تھا کہ وہ جس محاذ پر ہے ،وہ لہو مانگتا ہے ۔کیپٹن حافظ عمر فاروق کا اپنی بہن کیلئے پیار مثالی تھا۔ وہ جب بھی گھر آتے تواپنی بہن عابدہ سے بہت شفقت اور پیار کرتے۔ انہوں نے بہن کیلئے ایک بریسلٹ بھی تحفہ میں لایا تھا جو انہوں نے خود اپنی بہن کے ہاتھ میں پہناتے ہوئے کہا تھا کہ
’’یہ تمہیں میری یاد دلاتارہے گا‘‘۔ بھائی کی شہادت کے بعد بہن عابدہ نے بھائی کی دی یہ نشانی اتار کر سنبھال لی۔ شاید اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اسے پہنے رکھتی، بھائی کی یاد آنے پر اس تحفے کو دور سے دیکھ کر گزری یادوں میں کھو جاتی ہے۔ بھائی کا پیار اسے اپنے حصار میں لے لیتا ہے ۔عابدہ کو اپنے بھائی پر مان ہے ،اسے یقین ہے کہ اسکا بھائی زندہ ہے اور ہزاروں لاکھوں وجود حاصل کرچکا ہے اور ہر ایک وجود اپنی پاک سرحدوں اور سرزمین پاک کے ایک ایک انچ پر قربان ہونے کو تیار بیٹھا ۔(بشکریہ روزنامہ پاکستان لاہور)