لاہور(نیوز ڈیسک) بھارت سے آنیوالے سیکھ یاتریوں کی لاہور میں حضرت میاں میرکے در بار پر حاضری ۔ تفصیلات کے مطابق جمعرات کے روز بھارت سے آنیوالے مرد خواتین سکھ یاتریوں نے لاہور میں حضرت میاں میرکے در بار پر حاضری دی اور مزار پر پھولوں کی چادریں چڑھائیں جبکہ پولیس اور دیگراداروں نے اس موقعہ پر سیکورٹی کے انتہائی سخت انتظامات بھی کیے ۔
حضرت میاں میر قادریؒ نے زندگی بھر انسانوں کو اخوت و بھائی چارے کا درس دیا۔ ایک دوسرے کے مذاہب کا احترام کرنے کی تلقین کی۔حضرت میاں میرؒ مسلمانوں، سکھوں و دیگر مذاہب میں یکساں طور پر مقبول تھے۔ آج بھی آپؒ کا مزار دنیا بھر سے آنے والے مسلم، سکھ اور دیگر زائرین کے لئے مرجع خائق بنا ہوا ہے ۔ ہندو اور سکھ آکر یہاں دئیے جلاتے ہیں ۔حضرت میاں میر کے عقیدت مندوں میں سکھ مت کے پانچویں گرو، گرو ارجن دیو(1606ء تا 1581ء ) بھی شامل تھے۔ جنہوں نے سکھوں کی سب سے مقدس کتاب ’’ گرنتھ صاحب‘‘ مرتب کی یہ کتاب اس سے پہلے سینہ بہ سینہ چلی آرہی تھی۔ گروہ ارجن کا دوسرا کار نامہ امرتسر تالاب پر سکھوں کے سب سے بڑے گرودوار ‘‘گولڈن ٹیمپل’’ کی تعمیر بھی ہے۔ گروارجن دیو جی امرتسر کے تالاب میں گولڈن ٹیمپل کی بنیاد رکھنے سے پہلے لاہور تشریف لے گئے اور مسلمان صوفی میاں میر سے درخواست کی کہ وہ اس کی بنیاد اپنے ہاتھوں سے رکھیں ، چنانچہ حضرت میاں میر امرتسر تشریف لے گئے اور 13 جنوری 1588 ء کو وہاں چار اینٹوں سے سکھوں کے مشہور مقدس ترین گولڈن ٹمپل کا سنگ بنیاد رکھا۔ سکھوں میں آج بھی میاں میر کو بہت احترام کے ساتھ اعلیٰ مقام کا حامل قرار دیا جاتا ہے۔‘‘میاں میر ایک عظیم مسلمان بزرگ تھے، انہوں نے پاکیزہ زندگی گزاری ، اللہ کے بندہ ہونے کے ناطے، ان کے افکار کی
راہ میں ذات پات یا مذہب و رنگ و نسل کی کوئی رکاوٹیں حائل نہیں ہوئی۔ انہوں نے خدا سے محبت کرنے والوں سے محبت کی۔ وہ لاکھوں مسلمانوں کے پیر تھے ساتھ ہی وہ سکھوں اور ہندوؤں کے گرو ارجن کے ایک قریبی دوست بھی تھے۔ گرو ارجن کی خواہش پر، پیر میاں میر نے امرتسر میں سکھوں کے سب سے زیادہ مقدس مندر کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس سکھ گرودوارے کا یہ منفرد اعزاز ہے،
تاریخ میں کبھی ایسا واقع پیش نہیں آیا جہاں ایک مذہب کے سب سے مقدس ترین مقام کا سنگ ِبنیاد کسی دوسرے مذہب کی مقدس ہستی نے رکھا ہو۔ ’’ ۔۔۔حضرت میاں میرؒ ساٹھ سال سے زیادہ عرصے تک لاہور میں مقیم رہے، آپ کی عمر مبارک اب اٹھاسی سال کے قریب ہوچکی تھی۔ آپ بہت زیادہ ضعیف ہوگئے، بینائی اتنی کمزور ہوچکی تھی کہ کوئی خط یا کتاب پڑھنے سے قاصر ہوگئے تھے۔
آپ نے باغوں میں جانا چھوڑ دیا، اکثر اوقات اپنے حجرے میں عبادت میں مشغول رہتے اور باہر نہ جاتے تھے۔ دن بھر لوگوں کا ہجوم رہتا اور لوگ آپ سے مستفید ہوتے۔حضرت میاں میرؒ اتنے نحیف ہوچکے تھے کہ سہارے کے بغیر اٹھ کر بیٹھ بھی نہیں سکتے تھے۔ اس وقت بھی آپ غنودگی کے عالم میں آنکھیں بند کیے لیٹے تھے۔ اچانک آپ کے ہونٹوں کو جنبش ہوئی۔ آپ نے بلند آواز سے فرمایا‘‘
مجھے میرے دوستوں کے درمیان دفن کرنا۔’’یہ کہنے کے بعد آپ کے ہونٹوں کو جنبش ہوئی۔ آپ آہستہ آہستہ لفظ ‘‘اللہ’’ کا ورد کر رہے تھے۔ پھر یہ آواز اتنی کمزور ہوگئی کہ کوئی نہیں سن سکتا تھا۔ معرفت کا سورج غروب ہوچکا تھا۔ یہ7 ربیع الاول 1045ھ بمطابق 11 اگست 1635ء کادن تھا۔ہر سال عرس کے موقع پر آپ کے مزار پر بنا کسی رنگ و نسل کی تفریق کے مسلمان ، سکھ اور ہندو
حاضری دیتے ہیں۔آپ کی نماز جنازہ میں حاکم شہر کے علاوہ علما، فضلا اور صلحا اور بے شمار عقیدت مندوں نے شرکت کی۔ آپ کی وصیت کے مطابق آپ کے جنازے کو ہاشم پور یا دھرمپورہ کے مقام پر لے جایا گیا۔ (آج کل یہ آبادی میاں میرؒ کے نام سے مشہور ہے) یہاں آپ کے کئی دوست یعنی مرید دفن تھے، یہیں آپ کی وصیت تھی لہٰذا اسی مقام پر آپ کی تدفین کی گئی۔آج حضرت شیخ میاں میر ؒ کے
وصال کو 392 سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے۔ہر سال آپ ؒکا عرس مبارک 7 ربیع الاول کو منایا جاتا ہے، جہاں ملک کے کونے کونے سے بڑی تعداد میں ہر رنگ و نسل کے زائرین عرس میں شرکت کر کے روحانی فیوض و برکات سمیٹتے ہیں۔علامہ اقبال ؒ نے حضرت میاں میر کے بارے فارسی تصنیف ‘‘اسرار و رموز ’’میں فرمایا ہے۔حضرت شیخ میاں میر ولی، ہر خفی از نور جان او جلی،
بر طریق مصطفی محکم پئی ،نغمہ ی عشق و محبت را نئی،تربتش ایمان خاک شہر ما ،مشعل نور ہدایت بہر ما۔۔(ترجمہ: حضرت شیخ میاں میر ؒ وہ بزرگ تھے جن کی نوری نفس سے معرفت حق کا ہر چھپا ہوا راز ظاہر ہوا، آپ رسول اللہﷺ کی سنت پر مضبوطی سے قائم تھے اور آپ ایسی بانسری تھے جس میں عشق و محبت کے نغمے نکلتے تھے۔ ہمارے شہر کی خاک میں ایمان آپ کے مزار کی وجہ سے ہے اور وہ ہمارے لیے نورِ ہدایت کی مشعل