گلگت (این این آئی)محکمہ تحفظ ماحولیات گلگت بلتستان نے برفباری میں کمی اور تیزی سے گلیشیر پگھلنے کی موسمیاتی تبدیلیوں پر علاقے میں بڑے آبی بحران کا خدشہ ظاہر کیا ہے ۔ڈائریکٹر محکمہ تحفظ ماحولیات گلگت بلتستان خادم حسین نے علاقے میں موسمیاتی تبدیلیوں سے بڑے پیمانے پر آنے والے سیلابوں اور درجہ حرارت میں اضافے کے حوالے سے خصوصی بات چیت میں کہا کہ گلگت بلتستان میں موسمیاتی تبدیلیوں میں بیرونی عوامل کے علاوہ داخلی وجوہات کا بھی گہرا عمل دخل ہے۔
انہوں نے داخلی عوامل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان میں قدرتی جنگلات کی کٹائی اور گرین بیلٹ میں پھیلتی ہوئی آبادی اور گاڑیوں سے نکلنے والا کاربن کے ساتھ بے ہنگم تعمیرات جیسے ماحولیاتی چلنجز کا سامنا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس وجہ سے گزشتہ پچاس سالوں میں دیامر اور بونجی کے علاقوں میں درجہ حرارت میں ایک درجے کا اضافہ ہو گیا ہے جس نے کئی دہائیوں کے موسمی طریقہ کار کو یکسر بدل دیا ہے ۔خادم حسین نے موسمیاتی تبدیلیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ خشک موسم کا دورانیہ بڑھ گیا ہے اور بارشیں کم ہو رہی ہیں جبکہ برف باری موزوں اور درکار موسم کی بجائے فروری ،مارچ اور مئی کے بے موسمی مہینوں میں ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان مہینوں میں ہونے والی برفباری گلیشئر نہیں بن رہی ہے جس سے ان مہینوں کی برف مئی اور جون میں تیزی سے پگھل کر سیلاب کی وجہ بنتی ہے جس کے بعد نشیبی علاقے کے لوگوں کو آبی بحران کا سامنا ہوتا ہے۔خادم حسین نے حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ گلگت جوٹیال نالے، جس کے پانی سے ہزاروں لوگ آباد ہیں، کے پانی میں اس بار 70 فیصد کمی آئی ہے جبکہ اس سے قبل پانی ایک مخصوص مقدار میں بہتا تھا اور سال بھر پانی ملتا تھا، اب چند ہفتوں میں تیزی سے پگھلنے سے اگلے آٹھ ماہ میں خشک سالی جیسی صورتحال کا سامنا ہوتا ہے۔انہوں نے ایک سوال پر کہا کہ گلگت شہر میں زیادہ درخت نہ ہونے اور وسیع تعمیرات سے ٹمپریچر زیادہ ہے جبکہ چار کلومیٹر دوری پر واقع تحصیل دنیور میں وسیع درخت اور کم عمارتیں اور محدود سڑکوں کی وجہ سے درجہ حرارت تین سے پانچ فیصد تک شہر کی نسبت کم رہتا ہے۔خادم حسین کے مطابق درجہ حرارت پر 30 سال بعد تبدیل ہوتا ہے اور ان تین دہائیوں بعد موسم تبدیلی دکھا دیتا ہے ، یہی صورتحال اس وقت درپیش ہے ۔