کسی جگہ ایک نوسر باز رہا کرتا تھا۔ لوگوں کو اپنے اردگرد جمع کرنا اُس کا بائیں ہاتھ کا کھیل اور انہیں عجیب و غریب سودا بیچنا اُس کا کمال تھا، ایک بار نوسرباز لوگوں کو جنت میں زمین کا ٹکڑا بیچتا اور ملکیت کے کاغذات بنا کر دیتا ہے تو اس کے سودے نے ایسا عروج پکڑا کہ اس کے وارے نیارے ہوگئے۔ کسی دانا کا اس کے شہر سے گزر ہوا، شہر میں چل رہے اس نوسر باز کے کاروبار سے مچے شور شرابے سے اسے بھی بڑی حیرت ہوئی،
پوچھنے پر پتہ چلا کہ یہ نوسرباز لوگوں کو جنت کی زمین کا ٹکڑا بیچتا ہے اور ملکیت کے کاغذات بنا کر دیتا ہے۔ جس کسی نے اس سے جنت میں یہ زمین خرید رکھی ہو، مرنے پر ملکیتی کاغذات ساتھ دفنا دیے جائیں تو مرنے والا سیدھا جنت میں جا کر اپنی زمین پر رہائش اختیار کر لیتا ہے۔ شہر میں جاری اس کاروبار سے سب خوش اور کوئی بھی اس کے خلاف ایک حرف سننے کو تیار نہ تھا، یہ شخص سمجھاتا تو کسے سمجھاتا کہ جو اس سے جنت میں ٹکڑا خریدتا ہے دراصل اپنی بربادی خریدتا ہے اور اپنی عاقبت خراب کرتا ہے، کچھ کرنے کی لگن میں یہ آدمی ایک حل سوچ کر اس نوسرباز کے پاس جا پہنچا اور پوچھا، جنت کا ایک ٹکڑا کتنے کا ہے؟ دجال نے کہا بہت ہی سستا، بس ایک سو دینار کا۔ دانا نے پھر پوچھا اور اگر میں نے دوزخ میں زمین خریدنی ہو تو کیا بھاؤ ہے؟ نوسرباز اس انوکھے سوال پر بہت حیران ہوا اور کہا، کوئی مول نہیں، مفت میں لے لو۔ دانا نے کہا، نہیں میں اسے پیسوں سے خریدنا چاہتا ہوں اور اس کے ملکیتی کاغذ بھی چاہتا ہوں۔ نوسرباز نے کہا، اچھا تو میں تمہیں ایک چوتھائی دوزخ 100 دینار کی دیتاہوں جو کہ جنت میں فقط ایک ٹکڑے کی قیمت ہے۔ دانا نے پوچھا اور اگر میں پوری جہنم خریدنا چاہوں تو کتنے کی دو گے؟ نوسرباز نے کہا، لائیے 400 دینار اور پوری جہنم لے لیجئے اور میں آپ کو اس کے ملکیتی کاغذ بھی بنا دیتاہوں،
دانا نے نوسرباز کو 400 دیناردے کر پوری جہنم خریدی، ملکیتی کاغذات بنوائے اور گواہوں کے طور پر نوسرباز کے گرد لگے مجمع میں سے ڈھیر سارے لوگوں کے دستخط کرا لیے۔ رسید لیے دانا نے باہر جا کر لوگوں کو آواز دے کر بلایا اورکہا، اے لوگو، یہ دیکھو میں نے پوری جہنم خرید لی ہے، اب میں کسی کو بھی اس جہنم میں سے حصہ نہیں دوں گا اور نہ ہی کسی کو جہنم میں بسنے کی اجازت دوں گا، تمہارے پاس اب مرنے کے بعد کوئی چارہ نہیں کہ بس سیدھا جنت میں جا کر رہو، چاہے تم نے ادھر کے لیے کوئی ٹکڑا خریدا ہے یا نہیں، نوسر باز کے گرد جمع لوگوں نے جب یہ ماجرا دیکھا کہ انہیں تو دوزخ سے مفت میں ہی نجات مل گئی ہے تو اسے چھوڑ کر جانے لگے کہ اب جنت خریدنے کا کیا فائدہ، جب دوزخ کا ہی سدباب ہو چکا۔ نوسرباز جو اپنے آپ کو دوزخ بیچنے پر دانا سمجھ رہا تھا کو اب خبر لگی کہ اس کے ساتھ ہاتھ ہو چکا ہے اور اس کا جنت بیچنے کا کاروبار بند ہو چکا ہے۔