آج سے ٹھیک سو سال پہلے 15 اکتوبر 1917 کی صبح ایک سلیٹی رنگ کی فوجی گاڑی پیرس کی مرکزی جیل سے نکلی۔ اس پر ایک 41 سالہ ولندیزی خاتون سوار تھیں جنھوں نے ایک لمبا کوٹ پہن رکھا تھا اور ان کے سر پر چوڑا ہیٹ تھا۔ایک عشرہ قبل اس خاتون نے یورپ کے دارالحکومتوں کو اپنے قدموں پر جھکا رکھا تھا۔ یہ وہ شعلۂ جوالہ تھی جو رقص میں بےبدل تھی اور اس کے چاہنے والوں میں وزیر، صنعت کار
اور جنرل شامل تھے۔لیکن پھر پہلی جنگِ عظیم چھڑ گئی، جس نے دنیا کو بدل کے رکھ دیا۔ اس کا اب بھی خیال تھا کہ وہ یورپ بھر کی آنکھیں اپنے جلووں سے خیرہ کر سکتی ہے۔ لیکن اب اونچے ایوانوں میں بیٹھے مرد اس سے کچھ اور چاہتے تھے۔ انھیں اب انھیں اس خاتون کا التفات نہیں، معلومات درکار تھیں۔یہ ماتا ہری تھیں اور انھیں آج موت کے گھاٹ اتارا جانا تھا۔ان کا جرم؟ الزام تھا کہ وہ جاسوسہ ہیں جو اتحادی افسروں کو لبھا کر ان سے راز حاصل کر کے جرمنوں فوج کے حوالے کر دیتی ہیں۔ اخبار مرچ مسالے لگا کر خبریں چھاپتے تھے کہ ان کی وجہ سے ہزاروں اتحادی فوجی مارے گئے ہیں۔لیکن عدالت میں جو شواہد پیش کیے گئے ان سے کچھ اور کہانی ابھر کر سامنے آئی۔ وہ اصل میں ڈبل ایجنٹ تھیں اور انھیں قربانی کا بکرا بنایا گیا تھا۔اب ایک سو سال بعد فرانسیسی وزارتِ دفاع نے کچھ ایسی دستاویزات جاری کی ہیں جن سے دنیا کی تاریخ کی اس مشہور ترین جاسوسہ کے بارے میں نئے انکشافات ہوئے ہیں جو اس سے پہلے دنیا کی آنکھ سے اوجھل تھے۔ان میں 1917 میں ماتا ہری سے ہونے والی پوچھ گچھ کی دستاویزات بھی شامل ہیں۔ ان میں کچھ کو نیدرلینڈز میں ماتا ہری کے آبائی شہر لیووارڈن کے فرائز میوزیم میں نمائش کے لیے رکھا گیا ہے۔
ان دستاویزات میں میڈرڈ میں جرمنی کے فوجی اتاشی کی جانب سے برلن کو بھیجا گیا وہ تار بھی شامل ہے جو ماتا ہری کی گرفتاری کا باعث بنا۔مارگریٹ زیلے 1876 میں پیدا ہوئی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا معروف نام ماتا ہری انڈونیشیائی زبان سے آیا جس کا مطلب ہے ‘دن کی آنکھ،’ یعنی سورج۔ کم عمری میں شادی اور پھر شادی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد انھوں پیرس میں بطورِ رقاصہ زبردست شہرت بٹوری۔ فرائز میوزیم کے منتظم ہانز گروئن ویگ کہتے ہیں: ‘گذشتہ صدی کی ابتدا میں یورپی دارالحکومتوں میں انھوں نے جو کچھ کیا اس کی وجہ سے جاسوسی کے بغیر بھی ماتا ہری کو آج یاد کیا جاتا۔’انھوں نے بڑی حد تک سٹرپ ٹیز رقص ایجاد کیا۔ ہمارے پاس ان کی تصاویر اور اخباروں کے تراشے موجود ہیں۔ وہ اپنے زمانے کی سلیبرٹی تھیں۔’
آج ماتا ہری کو صرف جاسوسی کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے۔ گذشتہ برسوں میں کئی تاریخ دان ان کے دفاع میں سامنے آئے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ انھیں اس لیے قربان کر دیا گیا کہ فرانسیسی حکومت کو جنگ میں پے در پے ناکامیوں کا جواز پیدا کرنا تھا۔نسوانی حقوق کے علم بردار کہتے ہیں کہ ماتا ہری کو اس لیے نشانہ بنانا بےحد آسان تھا کہ ان پر ‘برے کردار’ کا الزام تھا جس کی وجہ سے انھیں بڑی سہولت سے فرانس کا دشمن قرار دے دیا گیا۔نئی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ ماتا ہری نے میڈرڈ میں جرمن ملٹری اتاشی آرنلڈ فان کالے سے تعلق استوار کیا۔ اس وقت وہ فرانسیسی خفیہ اداروں کے لیے کام کر رہی تھیں اور ان کا مقصد جرمن نیٹ ورکس کا سراغ لگانا تھا۔تاہم فان کالے نے ایک تار جرمنی بھیجا جس نے ماتا ہری کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ اس تار میں ایچ 21 نامی ایک جرمن جاسوس کا ذکر تھا۔ اس میں پتہ، بینک کی تفصیلات، حتیٰ کہ ماتا ہری کی خادمہ کا نام بھی درج تھا۔ فرانسیسی حکام کو یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی کہ ایچ 21 دراصل ماتا ہری ہیں۔
نمائش میں یہ تار بھی موجود ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس تار کا سرکاری ترجمہ موجود ہے، اور یہیں سے سارا معاملہ گڑبڑ ہوتا نظر آتا ہے۔یہ تار کوڈ ورڈز میں تھا لیکن فرانسیسی بہت عرصہ پہلے جرمن کوڈ بوجھ چکے تھے۔ جرمنوں کو بھی یہ بات معلوم تھی کہ فرانسیسی ان کی خفیہ زبان جان گئے ہیں۔دوسرے الفاظ میں، جرمنوں نے جان بوجھ کر وہ تار بھیجا تاکہ فرانسیسی اپنی ہی جاسوسہ کو پکڑ کر موت کے گھاٹ اتار دیں۔لیکن ایک اور نظریہ بھی ہے۔ریکارڈ میں صرف ترجمہ کیوں ہے؟ اصل تار کہاں ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ فرانسیسیوں نے خود ہی وہ تار گھڑ لیا ہو تاکہ ماتا ہری کو پکڑا جا سکے؟ اور یوں ایک ‘خطرناک جاسوس’ کو پکڑ کر اپنی کامیابی کا ڈھنڈورا پیٹا جائے؟چاہے یہ جرمنوں کا کام ہو یا فرانسیسیوں کا، دونوں صورتوں میں پھنسی ماتا ہری۔
دستاویزات میں ماتا ہری کا اعترافی بیان بھی شامل ہے۔ انھوں نے اپنے تفتیش کاروں کو بتایا کہ وہ واقعی جرمن جاسوسہ تھیں تاہم یہ کام انھوں نے صرف پیسہ حاصل کرنے کے لیے کیا اور ان کی ہمدردیاں اتحادی افواج کےساتھ تھیں۔تاہم ان کی بات پر یقین نہیں کیا گیا۔انھیں پیرس کے مشرقی مضافات میں واقع شیتو دے ونسین لایا گیا جہاں 12 سپاہی بندوقیں لیے ان کے منتظر تھے۔
بعض اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ ماتا ہری نے آنکھوں پر پٹی بندھوانے سے انکار کر دیا تھا۔ انھوں نے ایک ہاتھ ہلا کر اپنے وکیل کو خدا حافظ کہا۔ کمانڈر نے اپنی تلوار تیزی سے نیچے جھکائی، 12 رائفلوں کی صدا فضا میں گونجی اور ماتا ہری اپنے ہی قدموں پر گر پڑیں۔ماتا ہری کی نعش قبول کرنے کوئی نہیں آیا۔ اسے پیرس کے ایک میڈیکل کالج کے حوالے کر دیا گیا جہاں اسے طلبہ کو علم الابدان سکھانے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔ ان کا سر میوزیم آف اناٹومی میں محفوظ کر دیا گیا۔ تاہم 20 سال قبل یہ وہاں سے غائب ہو گیا۔