اس سے پہلے کہ شہرزاد کی کہانی شروع کی جائے، ان دو طاقتور باشاہوں کی داستان جاننا ضروری ہے جن میں سے ایک ہر رات کسی عورت سے شادی کرتا، صبح ہونے پر اسکا سر قلم کروا دیتا- کیوں؟اگر آپ بادشاہ کے درباریوں سے پوچھیں گے تو وہ یہی جواب دیں گے کہ انکی بیویوں نے انسے بیوفائی کی تھی اس لئے-کہانی شروع ہوتی ہے چھوٹے بھائی، سمرقند کے بادشاہ شاہ زمان سے- اس نے اپنی بیوی کو اپنے غلام کے
ساتھ دیکھا اور اسی لمحے تلوار کے ایک ہی وار سے دونوں کے ٹکڑے کردیے-اسکا بھائی شہریار جس کی حکومت ہندوستان سے چین تک پھیلی ہوئی تھی، اس سے عظیم بادشاہ تھا چناچہ اس سے بھی بڑا المیہ اسکا منتظر تھا- اس نے باغ میں اپنی ملکہ اور دس داشتاؤں کو غلاموں کے ساتھ ‘مشغول دیکھا-صدمے سے بےحال ہوکر اس نے اپنا تخت و تاج چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا اور اپنے بھائی کو بھی ایسا کرنے کے لئے آمادہ کیا- انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس وقت تک اس پوری دنیا میں گھومتے رہیں گے جبتک انہیں اپنے ہی جیسا کوئی بدنصیب نہیں مل جاتا-آخر کافی آوارہ گردی کے بعد انہیں اپنے جیسا ایک بدنصیب مل ہی گیا، لیکن وہ کوئی کمزور انسان نہ تھا بلکہ ایک طاقتور اور زبردست جن تھا-وہ جن اپنی عورت کو سات تالوں میں مقفل رکھتا تھا پھر بھی عورت نے اسے پانچ سو ستر بار دھوکہ دیا، اور ہر دھوکے کی نشانی اس نے ان مردوں کی انگوٹھیوں کی شکل میں محفوظ کر رکھی تھی-اس فہرست میں دونوں بھائیوں کا بھی اضافہ ہوگیا اور ان دونوں کی انگوٹھیاں بھی عورت نے ایک دھاگے میں باندھ کر رکھ لیں-وہاں سے نکلنے کے بعد دونوں بھائیوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ ہمیں عورتوں کے بغض سے پناہ ڈھونڈنی چاہیے، اور پھر دونوں شہریار کی سلطنت واپس آگئے- شہریار اپنے تخت پر بیٹھا اور وزیر اعظم کو ملکہ کو قتل کردینے کا حکم دیا- اس کے بعد اس نے ان
تمام داشتاؤں اور غلاموں کے بھی سر قلم کروا دیے جنہیں اس نے باغ میں عریاں رقص کرتے دیکھا تھا-لیکن ان سب کے بعد بھی اسکے دل کو تسلی نہ ہوئی، اس نے اپنے وزیر کو ایک دلہن لانے کے لئے کہا اور صبح جلاد کے ہاتھوں اس غریب کا سر قلم کروا دیا- یہ سلسلہ تین سال تک چلتا رہا، اسکی عوام نے اس ظلم کے خلاف احتجاج کیا، بادشاہ پر لعنت بھیجی، اور خدا سے اسکی تباہی کی دعائیں مانگیں-عورتیں مشتعل ہوگئیں-
مائیں فریاد کرنے لگیں- والدین اپنی بیٹیوں کو لے کر وہاں سے کوچ کرنے لگے حتیٰ کے وہ دن آگیا جب وہاں ایک بھی جوان لڑکی نہ بچی سوا دو کے، وہ دونوں وزیر اعظم کی بیٹیاں : شہرزاد اور دنیازاد تھیں-کہانی کا یہ رخ آپ بادشاہوں خوشامدیوں کے مونہہ سے سنیں گے جن کا غلبہ تمام درباروں پر ہوتا ہے- لیکن اگر آپ کو کہانی کا دوسرا رخ سننا ہے تو ان خاندانوں سے سنیں جن کی بیٹیاں بادشاہ کی خونی پیاس کی بھینٹ چڑھ گئیں-
وہ آپ کو بتائیں گے کہ دونوں بادشاہ دراصل نامرد تھے-انہیں کسی عورت سے شادی نہیں کرنی چاہیے تھی ، لیکن تخت و تاج کے ایک وارث کے لئے عوام کے بےپناہ دباؤ میں آکر انہوں نے شادی کی حامی بھر لی، یہ سوچ کر کہ انہیں ایک ایسی عورت گی جو افشا نہیں کرے گی-انہیں ایسی عورت مل بھی جاتی، کیوں کہ اکثر عورتوں کی شادی نامردوں سے ہو جاتی ہے اور تمام عمر اپنے خاوندوں کی جوانمردی کی تعریفیں کرتے گزار دیتی ہیں-لیکن وہ صرف نامرد نہیں تھے، ساتھ ہی بزدل بھی تھے- اور چونکہ وہ خود کبھی کسی کے ساتھ
وفادار نہیں رہے تھے چناچہ وہ اپنی بیویوں پر بھی بھروسہ نہ کر سکے، اور بلآخر انہوں نے بھی وہی راستہ اپنایا جو ان جیسے بزدل مرد اپناتے ہیں: تشدد کا راستہ-وہ اپنی آرامگاہ سے باہر تو بادشاہ تھے، مگر اندر چوہوں سے بھی بدتر تھے- چونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ راز کسی پر کھلے چناچہ انہوں نے اپنی ہر دلہن کو جلاد کی تلوار کے وار سے خاموش کردیا-تین سال تک یہی سب چلتا رہا اور پھر ایک دن انہیں شہرزاد کی شکل میں اپنا مقابل مل ہی گیا- وہ خوبصورت تھی ، ہوشیار تھی، اس نے کتابیں پڑھی تھیں، اس کے پاس ایک
ایسا ہنر تھا جو کسی مرد کے پاس نہیں ہوسکتا، اور وہ تھی طاقت، ایک عورت کی نرم و نازک طاقت-اس کی بہن دنیازاد بھی اسی کی طرح ہوشیار اور خوبصورت تھی، اور اپنی بہن کی طرح عورت کی طاقت سے واقف تھی اور اسکا استعمال بھی خوب جانتی تھی-ان دونوں نے مل کر بادشاہ شہریار کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا-لیکن انکا باپ وزیر اعظم بھی ایک مرد ہی تھا، وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ نرم و نازک طاقت آخر چیز کیا ہے اور
اس سے ایک زبردست بادشاہ کو کیسے شکست دی جاسکتی ہے-جب شہریار نے اسے اپنی بیٹیاں شادی کے لئے پیش کرنے کا اشارہ دیا تو وزیر کے پاس آسان ترین راستہ یہی تھا کہ سلطنت سے فرار ہوجا-شہرزادے اس آزمائش کے لئے تیار، سچ تو یہ ہے کہ وہ اسی دن سے اس موقع کا انتظار کر رہی تھی جب سے بادشاہ نے اپنی خامی چھپانے کے لئے معصوم عورتوں کا خون بہانہ شروع کیا تھا-اس نے اپنے والد سے کہا، “میرا
مشورہ ہے کہ آپ میری شادی بادشاہ سے کردیں، یا تو میں فتحیاب ہو کر زندہ رہوں گی یا پھر مرنے سے پہلے اسے تباہ کر جاؤں گی”-“تم نہیں جانتیں کہ کیا مانگ رہی ہو”، وزیر نے کہا، “میں تمہارا باپ ہوں، میں اپنی بیٹی کو موت کی جانب جاتے ہو نہیں دیکھ سکتا، اپنی ماں سے کہو سامان باندھے، ہم بھی دوسروں کی طرح یہ ملک چھوڑ دیں گے”-“نہیں، میرا خون ان سینکڑوں مظلوم عورتوں سے قیمتی نہیں جو اس پاگل بادشاہ کی کی
انا پر قربان کر دی گئیں”، شہرزادے نے جواب دیا،”میں بھی شاید انہی کی طرح ماری جاؤں لیکن اس سے پہلے میں اس مکروہ کھیل کو ختم کر کے جاؤں گی”-“تم بادشاہ کے غضب سے واقف نہیں ہو، لیکن میں جانتا ہوں کیونکہ میں اسکا وزیر ہوں”، وزیر اعظم نے کہا-“میں بادشاہ کے غضب سے تو آشنا نہیں لیکن ایک عورت کی ذہانت سے واقف ہوں”، شہرزادے نے جواب دیا-“مجھے اس نیک کام کے لئے تیار کریں، وہ
مجھے مار سکتا ہے تو مار دے، میں ایک شہید کی موت مروں گی”اس سے پہلے کے ہم کہانی آگے بڑھائیں میں آپ کو ایک راز بتانا چاہتا ہوں، ایک عورت کی نرم و نازک طاقت کے آگے ہر مرد، نامرد بن جاتا ہے- یہ ذہنی کمزوری ہے، جسمانی نہیں- اور تمام مردوں میں یہ کمزوری موجود ہوتی ہے-شادی کے لئے شاندار تیاریاں کی گئیں- شہرزاد کا لباس سنہرے دھاگوں سے تیار کیا گیا- اس کے لئے سمندروں سے موتی کھوج کر
لا گ – اس کے گلوبند میں انڈے کے برابر ہیرا سجایا گیا- پوری سلطنت اور دنیا بھر سے چن کر عطر اسکی خدمت میں پیش کیے گئے-اسے مزید خوبصورت بنانے کے لئے کئی دنوں تک طرح طرح کی جڑی بوٹیاں، تیل اور محلول اسکے جسم پر ملے گ – مہندی کے خوبصورت و نازک نقش سے اس کے ہاتھ اور پیر سجائے گئے -شادی کی رات، دلہن کی سیج دور دراز کے باغوں سے لا ئے گئے پھولوں سے سجائی گئی- کمرے کے
چاروں کونوں اور بستر کے نیچے خوشبودار گاؤ لوبان جلائے گئے -لیکن آپ یہ نہ سمجھیں کہ یہ سب بادشاہ کے حکم پر ہو رہا تھا- وہ شادی کی رات سے زیادہ، اس کے بعد آنے والی صبح کی تیاریوں میں دلچسپی رکھتا تھا- دلہن کا سر قلم کرنے کے لئے سب سے وزنی اور تیز تلوار کا انتخاب کیا گیا اور اسکا خون جمع کرنے کے لئے بڑے بڑے برتن فرش پر رکھے گئے-بادشاہ بذات خود ہر دلہن کے لئے جلاد کا انتخاب کرتا، جتنی
زیادہ خوبصورت دلہن ہوتی، جلاد اتنا ہی زیادہ خونخوار ہوتا- سر قلم ہونے کے بعد خصوصی ملازم فرش کی صفائی پر مامور تھے- بادشاہ چاہتا تھا کہ اس ظلم کے تمام نشانات منٹوں میں صاف کر دیے جائیں- اگر بدقسمتی سے خون کا ایک قطرہ بھی نظر آجاتا تو صفائی کرنے والوں کی پوری ٹیم کا سر قلم کر دیا جاتا-بادشاہ یہ چاہتا تھا کہ اس کی عوام صرف یہ یاد رکھے کہ کس طرح پہلی ملکہ نے بادشاہ کو دھوکہ دیا، کس طرح وہ
بادشاہ کی غیر موجودگی میں ایک غلام کے ساتھ ناجائز تعلقات رکھتی تھی ۔اس نے اپنے پاگل پن کو ایک احسان کا تاثر دینے کی کوشش کی- وہ چاہتا تھا لوگ یہ سمجھیں کہ روزانہ ایک کنواری لڑکی سے شادی کر کے اور دوسری صبح اسے قتل کروا کر وہ ان سب کو ایک بہت بڑی برائی سے بچا رہا ہے-وہ ناصرف یہ چاہتا تھا کہ اس ظلم کے تمام نشانات مٹ جائیں بلکہ اس نے یہ بھی یقینی بنا دیا کہ باہر کی دنیا کو محل کر اندر ہونے والے
کارروائیوں کی بھنک بھی نہ پڑے، کس طرح دلہنوں کو آرام گاہ سے باہر گھسیٹ کر نکالا جاتا ہے، کس طرح وہ اپنی زندگی بخشنے کے لئے گڑگڑاتی ہیں، کس طرح ذبح ہو جانے کے بعد بھی انکے جسم زندگی کی طرف لوٹنے کے لئے دیر تک پھڑ پھڑاتے رہتے ہیں، کس طرح اس پاس کی زمین اور بعض اوقات بادشاہ کا لباس بھی خون سے سرخ ہو جاتے ہیں- نہیں، وہ نہیں چاہتا تھا کہ یہ سب باہر کے لوگوں کو پتہ چلے-چناچہ اس بھیانک
کھیل میں ملوث پورے عملے کے کانوں میں اس نے پگھلا ہوا سیسہ ڈلوا دیا- تاکہ وہ ان مظلوم دلہنوں کی فریاد اور رونا پیٹنا نہ سن سکیں- اور اگر ایسا ہو بھی جاتا تو وہ یہ سب کسی کو نہیں بتا سکتے تھے کیونکہ انکی زبانیں کاٹ دی گئی تھیں-یہ سب سننے کے بعد آپ یقیناً یہ سوچ ہوں گے کہ دلہن کے لئے یہ ساری تیاریاں شہرزاد کے باپ نے کی ہونگی آخر کو وہ وزیر اعظم تھا- جی نہیں، ان سب سے اس کا کچھ لینا دینا نہ تھا-
وہ ان سب میں ملوث نہیں ہونا چاہتا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ جو راستہ اسکی بیٹی نے چنا ہے وہ صرف اور صرف موت کی طرف لے جاتا ہے-“وہ شادی کی سیج پر نہیں، قتل گاہ کی طرف جا رہی تھی”لیکن وہ اس معاملے میں مجبور تھا- وہ بادشاہ کے حکم پر سینکڑوں معصوم لڑکیاں اس قتل گاہ میں لایا تھا، اور اب سوا اسکی دو بیٹیوں، شہرزاد اور دنیا زاد، کے سلطنت میں کوئی اور کنواری لڑکی نہیں بچی تھی- سینکڑوں ماری گئی تھیں اور ہزاروں اس ملک سے کوچ کر گئی تھیں، جب ایک ملک پر ایسے ظالم حکمران کی حکومت ہو تو
لوگ یہی کرتے ہیں-جب بادشاہ نے شہرزاد کو لانے کا حکم دیا تب وزیر اعظم نے بھی وہاں سے بھاگنے کا سوچا لیکن اسکی بیٹی نے انکار کر دیا- وہ یہیں رک کر اس شیطانی کھیل سے لڑنے اور اس کا خاتمے کا ارادہ رکھتی تھی-وہ جانتا تھا کہ وہ جوان اور کمزور ہے اور اسکا کوئی حمایتی بھی نہیں ہے- وہ یہ بھی جانتا تھا کہ بحیثیت ایک عورت کے اس کا، اس طاقتور جابر بادشاہ سے کوئی مقابلہ نہ تھا-لیکن شہرزاد یہ جانتی
تھی کہ بحیثیت ایک عورت کے وہی تمام طاقتوں کا سرچشمہ ہے- وہ اپنی کمزوریوں سے واقف تھی لیکن یہاں لائی اور قتل کی جانے والی دوسری لڑکیوں کے برعکس وہ یہ بھی جانتی تھی کہ انہیں کسطرح طاقت میں بدلہ جاسکتا ہے-بادشاہ بھی جانتا تھا کہ شہرزاد ضدی اور جراتمند ہے- اس کے جاسوسوں نے بتایا تھا کہ وزیر اعظم اپنی بیٹیوں کو بچانے کے لئے ملک سے بھاگ رہا تھا مگر شہرزاد نے اسے روک دیا- چناچہ بادشاہ نے
بھی شہرزاد کو زیر کرنے کے لئے ایک دو چالیں تیار کر لیں-حجرہ عروسی میں داخل ہوتے ہی بادشاہ نے جلتے ہوے لوبان کی طرف اشارہ کر کے پوچھا ، “یہ سب کیا ہے ؟”“جذبات کی خوشبو، عالی جاہ “، شہرزاد نے جواب دیا-“مجھے خون کی بو زیادہ پسند ہے “، بادشاہ نے کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے کہا- “یہاں اتنے پھول کیوں سجائے گئے ہیں ؟”“یہ چاہت کے پھول ہیں، عالی جاہ “، شہرزاد بولی-یہ سن کر بادشاہ باغیچے
کی کھڑکی کی طرف گیا اور اسے کھول کر کھڑا ہو گیا-وہاں ایک خونخوار شخص، تیز روشنی میں کھڑا تلوار تیز کر رہا تھا-“یہ دیکھ رہی ہوں تم؟”، بادشاہ نے پوچھا-“آج کی رات محبّت نے مجھے اندھا کر دیا ہے، عالی جاہ”، شہرزاد نے کہا- “کل صبح میں دوسری باتوں پر توجہ دوں گی-““اب کوئی کل نہیں آئے گا”، بادشاہ نے کہا-“سورج بادلوں کے پیچھے بھی چمکتا ہے، کل صبح ضرور آئے گی “، شہرزاد بہت پرامید
تھی-“دیکھتے ہیں”، یہ کہتے ہوئے بادشاہ نے دروازہ کھولا- ایک غلام نے چھوٹی سی بوری کمرے میں پھینکی، بوری کے اندر کوئی چیز تکلیف اور غصّے سے چلّانے لگی-جیسے ہی بوری کا مونہہ کھلا، اس میں سے ایک بلی نکل کر کھڑکی کی طرف بھاگی، لیکن اس سے پہلے کے وہ کھڑکی تک پنہچتی، بادشاہ نے تلوار کے ایک ہی وار سے اس کے دو ٹکڑے کر دیے-پھر شہرزاد کے چہرے کے سامنے تلوار لہراتے ہوئے بولا
،”مجھے پریشان کیے جانا پسند نہیں “-’’یہ تو ایک بلا تھا، اگر کوئی بلی ہوتی تو کبھی یوں بھاگنے کی کوشش نہ کرتی”، شہرزاد نے مسکرا کر کہا-مسکراہٹ دیکھ کر بادشاہ گھبرا گیا- اس نے تلوار میان میں ڈالی اور کمرے کے بیچ میں کھڑا ہوگیا، کافی دیر یوں ہی گزر گئی- پھر ایک کرسی پر بیٹھ کر اس نے شہرزاد سے پانی لانے کو کہا-“جی، حضور والا” ، یہ کہتے ہوئے اس نے بادشاہ کی طرف پانی کا گلاس بڑھایا پھر بولی،
” پانی بلکل ایک مرہم کی طرح ہے کیوں کہ اس میں تبدیل ہوجانے کی صلاحیت ہے بالکل ایک عورت کی طرح”-“تبدیل ہونے کی صلاحیت عورت میں نہیں مرد میں ہوتی ہے، عورت کے پاس کوئی طاقت نہیں ہوتی”، بادشاہ بگڑ گیا-“اگر آپ کے خیال میں پانی بے بس ہے تو پھر عورت بھی بے بس ہوتی ہو گی”، شہرزاد پھر مسکرائی-“اس کا سر قلم کرنے سے پہلے میں دو کام ضرور کروں گا، ایک تو اس سے قبول
کرواؤں گا کہ عورت کمزور ہوتی ہے دوسرے اس کی یہ مسکراہٹ اس کے چہرے سے مٹا دوں گا”، بادشاہ نے دل میں تہیہ کر لیا-وہ بہار کی ایک شام تھی، پارک مختلف آوازوں سے گونج رہا تھا، انسانوں اور جانوروں دونوں کی- بچے ہنس رہے تھے، کتے بھونک رہے تھے- جوان ماؤں نے اپنے بچوں کو پکارا اور انہیں تمیز سے رہنے کو کہا- بچے کہاں سنتے ہیں وہ اپنی پکڑم پکڑائ میں مگن رہے-‘پکڑ لیا! ‘، بچے نے دوسرے
بچے کو چھوتے ہوے کہا، ‘اب تم چور بنو گی’-‘نہیں بالکل نہیں، میں تمھارے پکڑنے سے پہلے گھر پہنچ گئی تھی’، دوسرے بچے نے کہا-‘سمندر گہرا ہے، میری بہنا، سمندر گہرا ہے’، دنیازاد بولی-‘کتنا گہرا، میری بہنا ، کتنا گہرا ؟’، شہرزاد نے پوچھا-‘میرے پیروں تک، پیاری بہن، میرے پیروں تک’، دنیازاد نے جواب دیا-‘کتنا گہرا بہن اور کتنا گہرا ؟ ‘”میری گھٹنوں تک، میری کمر تک، میرے سینے تک، میری آنکھوں تک
!’-وہ دونوں اپنے گھر تک پہنچنے سے پہلے ہی پکڑی گئیں اور محل پہنچا دی گئی تھیں- اب دونوں اس فکر میں تھیں کہ اپنی جان کیسے بچائیں-لیکن کیا واقعی میں کبھی کوئی گھر تھا؟ شاید نہیں، وہ تبھی تک محفوظ تھیں جب تک عزت و ناموس کے جنون میں مبتلا عمر رسیدہ مردوں کے بنا ئے ہوئے اصولوں کے مطابق چلتی رہتیں-‘ آخر انکی عزت کا معاملہ ہمیشہ عورت کے جسم سے ہی کیوں جڑا ہوتا ہے’، دنیازاد نے
پوچھا-‘کیونکہ اس طرح وہ آزادی سے اپنی مردانگی کی نمائش کر سکتے ہیں’، شہرزاد نے کہا-دنیا کے ایک دوسرے کونے پر، جہاں بہار بہت مختصر ہوتی ہے اور گردآلود سردیوں کے فوراً بعد وہاں گھٹن زدہ گرمیاں شروع ہوجاتی ہیں، ایک ‘کاری’ اپنے بھائی سے کہہ رہی ہے، ‘ میں نے اپنی عزت کا سودا نہیں کیا، میری آبرو لوٹی گئی ہے’-‘اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا زنا، زنا ہے زبردستی ہو یا مرضی سے- تم نے خاندان کی
عزت خاک میں ملائی ہے’، بھائی نے اپنی بندوق سے بہن کا نشانہ لیتے ہو ئے کہا-‘پکڑ لیا’، لڑکے نے لڑکی کو چھوتے ہوئے کہا-‘ نہیں، نہیں ! میں تو اپنے گھر پر ہوں’، لڑکی نے جواب دیا-‘لیکن گھر ہے کہاں؟’، لڑکے نے سوال کیا-لڑکی نے سسکتے ہوئے اپنے اردگرد دیکھا-‘بادشاہ ایک برا انسان تھا، لیکن اس سے بھی برے وہ لوگ تھے جنہوں نے بادشاہ کی طرفداری میں کہانی لکھی’، شہرزاد بولی- ‘ وہ کہتے تھے کہ بادشاہ
نے روزانہ ایک عورت کا قتل کر کے بالکل ٹھیک کیا کیونکہ اسکی پہلی بیوی نے اس سے بیوفائی کی تھی’-‘ہاں، لیکن ساتھ وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ تم اس سے محبت کرتی تھیں’، دنیازاد نے کہا-‘وہ جو چاہیں کہہ سکتے ہیں مگر وہ محبت کو کبھی سمجھ نہیں پائیں گے’، شہرزاد نے جواب دیا-‘لیکن وہ اپنی ماؤں کی محبت کو تو سمجھتے ہیں’، دنیازاد بولی-‘وہ نہیں سمجھتے وہ اسکا مطالبہ کرتے ہیں ٹھیک اسی طرح جیسے
اپنی بہنوں اور بیویوں سے محبت کا مطالبہ کرتے ہیں’، شہرزاد نے کہا، ‘ پاکیزہ اور بے غرض محبت سے مرد گھبراتے ہیں ‘-‘کیوں؟ ‘، دنیازاد نے پوچھا-‘مرد جس چیز پر اپنا ہاتھ رکھ لیں اسے اپنی ملکیت بنانا چاہتے ہیں- لیکن محبت کو محسوس کیا جاتا ہے بانٹا جاتا ہے- یہ کسی کی ملکیت نہیں بن سکتا-‘‘اور جس پر یہ قبضہ نہیں کر سکتے اسے تباہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں’، دنیازاد نے اس میں اضافہ کرتے ہوے پوچھا،’
تم نے اسے رام کرلیا، کیسے؟’‘ہم عورتوں کو اکثر جنگلی جانوروں کو سدھانا پڑتا ہے’، یہ شہرزاد کا جواب تھا-الف لیلیٰ میں شہرزاد نے بادشاہ کو بتایا کہ عورتیں مردوں سے زیادہ سمجھدار ہوتی ہیں-بادشاہ جو شادی کی رات سے زیادہ اگلی صبح قتل کے پروگرام میں دلچسپی رکھتا تھا، شہرزاد سے بولا، ‘جو تم نے کہا ہے وہ ثابت کرو ..ورنہ’-‘عالی جاہ، مجھے تو ویسے بھی مر جانا ہے، میرے ساتھ اس سے برا اور کیا ہو سکتا ہے’،
شہرزاد نے مسکراتے ہو ئے جواب دیا-بادشاہ کو بھی احساس ہوگیا کہ اس کے پاس لڑکی کو ڈرانے کے لئے کوئی اور حربہ نہیں، چناچہ وہ کمرے سے باہر چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد شب خوابی کے لباس میں واپس آیا- لیکن وہ اپنی تلوار ساتھ لانا نہیں بھولا تھا-‘ثابت کرو کہ عورت، مرد سے زیادہ سمجھدار ہوتی ہے ورنہ’، اس نے تلوار کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے کہا-‘عالی جاہ مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ موت سے زیادہ بری
چیز اور کچھ نہیں- میرے پاس اپنا نکتہ ثابت کرنے کے لئے ایک ہزار ایک کہانیاں ہیں، وہ میں آپ کو سنا سکتی ہوں لیکن خوف کی وجہ سے نہیں بلکہ مجھے کہانیاں سنانا پسند ہیں’، شہرزاد بولی-‘ جو بھی ہے، شروع کرو’، بادشاہ نے اشارہ کیا-‘لیکن ایک مسئلہ ہے عالی جاہ’، شہرزاد نے کہا-‘اور وہ مسئلہ کیا ہے؟’، بادشاہ نے پوچھا-‘میں کہانی اس وقت تک نہیں سنا سکتی جبتک میری چھوٹی بہن ساتھ نہ ہو’، شہرزاد نے
بتایا-چناچہ فوراً دنیازاد کو بلوایا گیا-دنیازاد آئی اور اس نے ادب کے ساتھ فرشی سلام کیا جیسے تمام مرد اور عورتوں کو کرنا ہوتا ہے، اور پھر بادشاہ کے قدموں میں بیٹھ گئی- بعض مردوں کو اچھا لگتا ہے جب عورتیں انکے قدموں کے پاس بیٹھتی ہیں-دنیازاد کے پاس بیٹھنے کے ساتھ ہی شہرزاد نے اپنی کہانی شروع کردی-‘بغداد کے قریب ایک شہر کا سردار تاجر اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر لوگوں سے وصولی کرنے نکلا- دوپہر کے وقت وہ ایک نہر کے کنارے رک گیا، گھوڑے کو درخت سے باندھ کر کھانا کھانے لگا-‘کھانا ختم
کر کے اس نے کچھ کھجوریں نکالیں اور انہیں بھی کھانے لگا- کھانے کے بعد اس نے بیج زور سے پھینکے کہ اچانک ایک بڑا سا خوفناک عفریت ہاتھ میں تلوار لئے نمودار ہوا-‘تم نے میرے بیٹے کی آنکھ پھوڑ دی، مرنے کے لئے تیار ہوجاؤ’، عفریت نے للکارا-چونکہ شہرزاد داستان گوئی میں ماہر تھی چناچہ تاجر اور عفریت کی کہانی آگے تین شیخوں تک چلی گئی—جن میں سے ایک کے پاس غزال تھا، دوسرے کے پاس دو
شکاری کتے اور تیسرے کے پاس ایک خچر تھا—- اور ان سے آگے مچھیرے اور جننی کی کہانی تک-پارک میں شہرزاد اگلی سردیوں کے لئے گرم شال بنتے بنتے روک گئی، اور دنیازاد سے بولی،’اندھیرا بڑھ رہا ہے، چلو گھر چلیں، الف لیلیٰ ہو یا اسکندریہ عورت آج بھی کہیں محفوظ نہیں ہے’-وہ چھوٹی سی بچی جو سمجھ رہی تھی اس کے پاس گھر ہے، روتی ہوئی کار تک گئی جہاں اسکی ماں اسکا انتظار کر رہی تھی-کاری نے
آخری بار اپنے بھائی کی طرف دیکھتے ہوے خود سے سوال کیا، ‘ آخر اسکی عزت کی حفاظت کے لئے میرا مارنا کیوں ضروری ہے؟’بادشاہ نے شہرزاد کو ایک دن مزید زندہ رہنے دیا-شہرزاد جانتی تھی کہ اسے ایک وقت میں ایک ہی قدم اٹھانا ہے اس لئے اسے فکر نہیں تھی- پارک میں اندھیرا آہستہ آھستہ روشنی کو نگل گیا لیکن شہرزاد نے کار میں بھی اپنی بنائی جاری رکھی-اور اسکی ادھوری شال نے دنیا کو نرمی کے ساتھ اپنی گرم آغوش میں لے لیا-تحریر:انور اقبال(بشکریہ، ڈان)