اس کے ماں باپ ہر دن 18 گھنٹے کام کرتے تھے لیکن اس کے باوجود اپنے بچوں کو پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھلا پاتے تھے‘ ماں باپ کے کسی دن کام پر نہ جانے کا مطلب ہوتا کہ اس دن سارا خاندان بھوکا رہے گا۔ گھر میں کل 10 لوگ تھے۔ والدین اور 8 بچے، جن میں یہ بچہ بھی ایک تھا۔ 8 بھائی بہنوں میں اس بچے کا نمبر پانچواں تھا اور اس کا نام تھامدھوسودن۔ بھائی بہن ہمیشہ پھٹے پرانے اور داغدار کپڑے پہنے رہتے‘ ننگے
چلتے‘ یہ بچے خواب تو دیکھتے لیکن گاڑی‘ بنگلہ‘ شاپنگ مال کے نہیں بلکہ ان کا خواب ہوتا پیٹ بھرکر کھانا، اچھے کپڑے اور پاؤں میں بار بار کانٹے چبھنے سے بچنے کے لئے چپلیں مل جائیں بس۔ 10 افراد پر مشتمل یہ خاندان گاؤں میں ایک چھوٹی جھونپڑی میں رہتا جھونپڑی میں رہتا تھا۔ مدھو سودن کو سمجھ نہیں آتا کہ جب گاؤں کے کافی لوگ اچھے اور پکے مکانوں میں رہتے ہیں‘ اس کا خاندان آخر جھونپڑی میں کیوں رہتا ہے؟ وہ اس بات کو لے کر بھی حیران رہتا کہ اس کے ماں باپ آخر کرتے کیا ہیں؟ وہ کہاں جاتے ہیں؟ اس حیرانی کی وجہ یہ تھی کہ ہر دن صبح ان کی نیند کھلنے سے پہلے ہی اس کے ماں باپ کہیں چلے جاتے۔ وہ جب تک لوٹ کر آتے بہت دیر ہو گئی ہوتی اور بچہ تھک ہار کر سو جاتا۔ جیسے جیسے وہ بڑا ہونے لگا اسے کئی چیزیں سمجھ آنے لگیں۔ اسے معلوم ہوا کہ اس کا خاندان غریب ہے اور ایک انتہائی پسماندہ ذات سے ہے۔ وہ یہ بات بھی سمجھ گیا کہ اس کے والد ایک زمیندار کے پاس بندھوا مزدور ہیں‘ دہاڑی پر کام کرتے ہیں‘ ماں تمباکو کی فیکٹری میں کام کرتی ہے اور گھر چلانے کے لئے بڑی بہن کو بھی ماں کے ساتھ کام پر جانے کے مجبور ہونا پڑتا ہے۔اس بچے کو جب اسکول بھیجا گیا تب اسے یہ بھی پتہ چلا کہ اس کے ماں باپ ناخواندہ ہیں۔ ایک بھائی کو چھوڑ کر دوسرے سارے بھائی بہن بھی پڑھنا لکھنا نہیں جانتے۔ بڑی مشکل سے ماں باپ نے
اپنے دو بچوں کو اسکولبھجوانا شروع کیا تھا۔ گھر خاندان میں غریبی کچھ اس طرح سے غالب تھی کہ دن بھر میں صرف ایک بار کھانا کھا کر ہی بچے خوش ہو جاتے تھے۔ بچے کیلئے سب سے چونکانے والی بات یہ تھی کہ گاؤں والے اس کے گھر والوں کے ساتھ بہت ہی گھناؤنا برتاو کرتے۔ گھٹنو کے بل پر زمین پر بیٹھ کر دونوں ہاتھ پھیلانے پر ہی کوئی انہیں پینے کے لئے پانی دیتا۔ گاؤں والوں کے طے شدہ قوانین کے مطابق اس لڑکے
کے خاندان میں کوئی بھی گھٹنوں کے نیچے تک دھوتی نہیں پہن سکتا تھا۔ عورتوں کے جیکٹ پہننے پر پابندی تھی۔ خاندان والے جہاں مرضی چاہے اٹھ بیٹھ بھی نہیں سکتے تھے۔اس بچے اور اس کے خاندان میں سے کسی کی پرچھائی پڑ جانے پر گاؤں کے کچھ لوگ اسے اپشگن مانتے اور ایسا ہونے پر اس شخص کو سزا دیتے۔ایسے حالات میں جب بچہ اسکول جاکر پڑھنے لگا تو پڑھتے لکھتے اس کو احساس ہونے لگا کہ اسے اپنے
خاندان کو غربت اور بندھوا مزدوری سے باہر لانے کے لئے اس قدر پڑھنا ہو گا کہ اسے اچھی نوکری ملے اور وہ اس گاؤں سے بہت دور اور وہ بھی کسی بڑے شہر میں۔ لڑکے نے اسکول میں بہت محنت کی۔ جم کر پڑھائی لکھائی کی۔ ٹیچروں نے جیسا کہا ویسے ہی کیا۔ پہلے دسویں اور پھر بارہویں کا امتحان پاس کیا۔ بارہویں کے بعد انٹرنس پاس کر پولٹیکنک کالج میں داخلہ لیا‘ ڈپلوما مکمل کیا‘ وہی بچہ اب جوان ہو چکا تھا‘ پڑھا لکھا بھی
تھا‘اس وجہ سے خاندان کی ساری امیدیں اسی پر آ ٹکی تھیں لیکن ڈپلوما کرنے کے بعد جب کام نہیں ملا تو اپنے ماں باپ کی طرح ہی اجرت پر کام شروع کر دیا۔ شہر میں واچ مین کا کام بھی کیا پھر ایک دن بڑا فیصلہ لیا۔ فیصلہ تھا کاروباری اور تجارتی بننے کا۔ خواب پورا کرنے کے لئے نوجوان نے خوب محنت کی۔ دن رات ایک کیا۔ در در ٹھوکریں کھائیں، لیکن ہار نہیں مانی۔ آخر کار ایک دن گاؤں کے ایک غریب دلت خاندان میں پیدا
ہوا یہ نوجوان کاروباری بن گیا۔ اس نے سال بہ سال اپنے کاروبار کو وسعت دی۔ آج یہی شخص 20 کمپنیوں کا مالک ہے۔ اس نے ہزاروں لوگوں کو روزگار کا موقع دیا ہے۔ اس گنتی اب ملک کے انوکھے اور کامیاب کاروباریوں میں ہونے لگی ہے۔مدھوسودن راؤ ایم ایم آر گروپ آف کمپنیز کے بانی اور ڈائریکٹر ہیں اور انہوں نے ٹیلی کام، آئی ٹی، الیکٹریکل، مکینیکل، فوڈ پروسیسنگ جیسے کئی شعبوں میں اپنی کمپنیاں کھولی ہیں اور ہر
کمپنی اچھا کام کرتے ہوئے منافع کما رہی ہے۔مدھوسودن راؤ کو اب بھی یاد ہے۔غریب مزدور ماں باپ نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنی 8 اولاد میں سے دو کو ضرور اسکول بھیجیں گے۔ مدھوسودن راؤ سے پہلے ان کے بڑے بھائی مادھو کو اسکول بھیجا گیا۔ پھر اسکول کے لئے مدھوسودن راؤ کو منتخب کیا گیا۔ دونوں بھائی‘ سرکاری اسکول جانے لگے۔ دونوں نے خوب دل لگا کر پڑھائی کی۔بڑے بھائی مادھو نے بی ٹیک کا کورس کیا
تھا‘ مدھوسودن بھی بی ٹیک ہی کرنا چاہتے تھے لیکن، بھائی اور کچھ دوسرے لوگوں نے پولی ٹیکنک کرنے کی صلاح دی تھی۔ اس مشورہ کے پیچھے بھی ایک خاص وجہ تھی۔ ان دنوں لوگوں کی یہ خیال تھا کہ کسی اور کورس سے روزگار ملے نہ ملے، پولی ٹیکنیک کورس پر ضرور ملے گالیکن مدھوسودن کو نوکری نہیں ملی‘ والدین، بھائی بہنوں کی امیدیں بھی دم توڑنے لگی تھیں۔یہ پوچھے جانے پر کہ پولی ٹیکنیک کے بعد بھی
انہیں نوکری کیوں نہیں ملی، مدھوسودن نے کہا، میں جہاں کہیں بھی جاتا لوگ ریفرنس پوچھتے میرے پاس کوئی ریفرنس نہیں تھا۔ دیہی علاقے سے ہونے کی وجہ سے بھی مجھے کئی بار رجیکٹ کر دیا گیا تھا۔ کئی بار تو مجھے اس وجہ سے کام نہیں دیا گئی کیونکہ میرے خاندان میں زیادہ تر لوگ ناخواندہ تھے۔ مدھوسودن نے کہا،میں خاموش نہیں بیٹھ سکتا تھا۔میری تعلیم کے لئے گھروالوں نے بہت تکلیفیں سہیں تھی۔ ماں باپ، بھائی بہن
سب کو یہی لگتا تھا کہ ڈگری حاصل کرنے کے بعد میں ملازمت کروں گا۔ روپے کماؤ ں گا۔ مجھ پر ہی آکر ان امیدیں ٹکی تھیں۔ میں انہیں مایوس بھی نہیں کر سکتا تھا۔ انہی حالات میں میں نے کچھ بھی کرکے روپے کمانے کا فیصلہ لیا۔ مدھوسودن کا فیصلہ تھا کہ وہ اپنے دوسرے بھائی بہنوں کی طرح ہی اجرت کریں گے۔ ان کا ایک بھائی حیدرآباد میں مستری کا کام کرتا تھا۔ مدھوسودن نے اپنی بھائی کے یہاں ہی اجرت کرنی شروع کردی۔
عمارتوں اور بنگلوں کی تعمیر کے لئے مٹی اور پتھر ڈھوئے۔ دیواروں پر پانی ڈالا چونکہ اجرت زیادہ نہیں ملتی تھی، مدھوسودن نے دوسرے کام بھی ڈھونڈنے شروع کر دئے۔ مدھوسودن نے بتایادن میں مزدوری کرنے پر مجھے پچاس روپے ملتے تھے۔ جب مجھے پتہ چلا کہ رات میں کام کرنے پر ایک سو بیس روپے ملتے ہیں، تب میں نے رات میں بھی کام کرنا شروع کر دیا۔ میں نے واچمین کی طرح بھی کام کیا۔ارادے نیک تھے اور
ایمانداری سے پوری قوت لگا کر کام کرتے تھے اسی وجہ سے شاید زندگی نے انہیں ایک اور بہترین موقع دیا۔زندگی میں اہم تبدیلی لانے والا اہم واقعہ سناتے ہوئے مدھوسودن نے کہا، ایک دن میں ٹیلی فون کا ایک ستون گاڑھنے کے لئے کھدائی کر رہا تھا۔ ایک انجینئر میری طرف آیا اور اس نے پوچھا کیا تم پڑھے لکھے ہو۔ میں نے جواب میں کہا‘ جی ہاں‘ میں نے پولی ٹیکنیک کیا ہوا ہے۔ اس جواب کے بعد اس انجینئر نے کہا کہ تمہارے
کام کرنے کے طریقے کو دیکھ کر ہی سمجھ گیا تھا کہ تم پڑھے لکھے ہو۔ کوئی دوسرا مزدور ہوتا تو اس طرح سلیقے سے ناپ لے کر کھودنے کا کام نہیں کرتا۔ تم نے ناپ لیا اور سائنٹیفک طریقے سے کھدائی کی‘تعریف کرنے کے بعد اس انجینئر نے مدھوسودن سے پوچھا، کام کرو گے؟یہ سوال سنتے ہی مدھوسودن خوشی سے بے قابو ہو گئے۔ مدھوسودن اس انجینئر سے گڑگڑانے لگے۔ کہنے لگے، مجھے نوکری کی سخت ضرورت ہے۔میرا
خاندان مجھ پر امیدیں لگائے بیٹھا ہے۔ میں صرف کام کے انتظار میں ہوں۔وہ انجینئر انہیں اپنے دفتر لے گیا۔ مدھوسودن کا انٹرویو شروع ہوا۔ ایک طرف انٹرویو جہاں چل رہا تھا، وہیں دوسری طرف ایک بڑے ٹھیکیدار اورچھوٹے ٹھیکیدار کے درمیان ایک معاہدے کو لے کر بحث چل رہی تھی۔ چھوٹا ٹھیکیدار زیادہ رقم مانگ رہا تھا۔ یہ دیکھ کر مدھوسودن نے بڑے ٹھیکیدار سے وہ ٹھیکہ انہیں دے دینے کی گزارش کی۔ مدھوسودن نے بڑے
ٹھیکیدار کو بھروسہ دلایا کہ وہ مزدوروں سے کام لینے کے معاملے میں ایکسپرٹ ہے۔ پہلے تو اس بڑے ٹھیکیدار نے مدھوسودن سے اپنے انٹرویو پر توجہ دینے کو کہا لیکن جب اس چھو ٹھے ٹھیکیدار سے اس کی بات نہیں بنی تو اس نے مدھو سودن کو وہ ٹھیکہ دے دیا۔ٹھیکہ تو مل گیا لیکن مدھوسودن کے پاس مزدوروں کو ایڈوانس دے کر انہیں کام شروع کروانے کے لیے ضروری پانچ ہزار روپے بھی نہیں تھے۔ مدھوسودن نے اپنے
بھائی بہنوں سے مدد مانگی۔ اس مدد کو ان کی زندگی میں انقلابی تبدیلی لانے والا بتاتے ہوئے مدھوسودن نے کہا، میری ایک بہن نے مجھے نو سو روپے دیے۔ یہی رقم لے کر میں مزدوروں کے پاس گیا اور انہیں میرے لئے کام کرنے کو منایا۔ نو سو روپے سے کام شروع ہو گیا۔ مجھے پہلے ہی دن بیس ہزار روپے کی آمدنی ہوئی۔ میرے دن بدل گئے۔کام سے خوش ہوکر بڑے ٹھیکیدار نے مدھوسودن کو ایک لاکھ روپے ایڈوانس بھی دیئے۔ اس
کے بعد مدھوسودن نے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔مدھوسودن نے ایک کے بعد ایک کرتے ہوئے اب 20 کمپنیاں قائم کیں۔ آئی ٹی سے لے کر فوڈ پروسیسنگ تک اب ان کمپنیوں کی دھاک ہے۔ مدھوسودن راؤ اپنی کامیابی کی وجہ سے اب بھارت میں ہی نہیں، بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں مشہور ہو گئے ہیں۔ وہ دلت انڈین چیمبر آف کامرس کی اندھراپردیش شاخ کے صدر بھی ہیں۔مدھوسودن کہتے ہیں جہاں موقع ملے فائدہ اٹھانے کی
پوری کوشش کرتا ہوں۔ میرے لئے ٹائم مینجمنٹ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔مدھوسودن نے مزید کہا،میرے ماں باپ ہی میری تحریک ہیں۔ میں نے انہیں ہر دن 18 گھنٹے کام کرتے دیکھا ہے، میں بھی انہی کی طرح ہر دن 18 گھنٹے کام کرتا ہوں۔میں جب کبھی کسی مسئلہ سے گھر جاتا ہوں تو ماں باپ کو ہی یاد کرتا ہوں۔ مجھے احساس ہوتا ہے کہ میرا مسئلہ میرے ماں باپ کے مسائل سے بڑا ہو ہی نہیں سکتا۔انہوں نے جو تکلیفیں سہی ہیں، ان
کے مقابلے میں میری تکلیفیں کچھ بھی نہیں ہیں۔ ان کی کامیابی کے منتر کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں مدھو سودن نے کہا،انسان، مٹیریل اور منی (آدمی، اشیاء اور کرنسی) یہ تین آپ کے پاس ہیں اور آپ ان کا صحیح استعمال کر رہے ہیں تو آپ کو کامیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ میں نے ان تینوں کے مینجمنٹ پر مکمل توجہ دی اور اسی وجہ سے کامیاب رہا۔مدھوسودن نے کہا، اگلے پانچ چھ سالوں میں میں دیہی
علاقوں کے نوجوانوں کو ایسی ٹریننگ دینا چاہتا ہوں، جس سے انہیں نوکری حاصل کرنے، کاروباری بننے میں آسانی ہو۔میں نے ٹھان لی ہے کہ میں اگلے 5 سالوں میں دیہی علاقوں سے آنے والے کم از کم پانچ ہزار نوجوانوں کو یا تو کاروباری بناوں گا یا پھر انہیں اچھی ملازمت حاصل کرنے کے قابل بناؤں گا۔ ہم سب جھونپڑی میں رہتے تھے۔ آج ہم سب کے پاس پکے مکان ہیں۔ میرے خاندان میں اس وقت 65 لوگ ہیں اور تمام کام پر لگے ہوئے ہیں۔ میں یہی چاہتا ہوں کہ تمام نوجوانوں کو روزگار ملے۔ کوئی بھی غریب نہ رہے۔