منگل‬‮ ، 02 جولائی‬‮ 2024 

قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی منگی کیسے ہوئی؟

datetime 1  اگست‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

سندھ مدرسہ کے ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ جب وہ انگریزی کی چوتھی کلاس میں تھے تو پانچ جنوری 1891ء کو انہوں نے اس سکول کوایک مرتبہ خیر آباد کہہ دیا۔ ان کی اگلی درس گاہ لارنس روڈ کراچی کا سی ایم ایس ہائی سکول تھی۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ انہیں مؤخرالذکر سکول زیادہ پسند نہیں آیا، ایک بار پھر انہوں نے والد سے درخواست کی کہ انہیں واپس سندھ مدرسہ میں داخل کرادیا جائے، چنانچہ ان کی اس خواہش کے مطابق

ایک ماہ بعد نو فروری 1891ء کو انہیں تیسری مرتبہ سندھ مدرسہ میں انگریزی کی چوتھی کلاس میں داخل کردیا گیا۔ اب ان کی عمر پندرہ برس ہو چکی تھی اورمیرے والد اپنے بیٹے کے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہونے لگے تھے۔ انہیں حیرت ہوتی تھی کہ آخر ان کا بیٹا کیا بنے گا۔ گراہمز ٹریڈنگ کمپنی کے انگریز جنرل منیجر نے، جواب تک میرے والد کا بہت اچھا دوست بن چکا تھا، پیش کش کی وہ محمد علی کو لندن میں اپنی فرم کے صدر دفتر میں تین سال کے لیے اپرنٹس کے طور پر بھجوا سکتا ہے، وہاں اسے کاروبار کا نظم ونسق چلانے کی عملی تربیت دی جائے گی۔ یہ تربیت لندن سے واپسی پر محمد علی کے لیے اپنے والد کا کاروبار سنبھالنے میں بہترین معاون ثابت ہو گی۔ جنرل منیجر کو یقین تھا کہ اس مرحلے پر یہ نوجوان اپنے والد کے لیے بہت بڑا اثاثہ ثابت ہوگا اور وہ کاروبار کو مزید پھیلانے میں والد کا مددگار بنے گا۔ اس تجویز پر خوش حال تاجر کا دل بے حدخوش ہوا، جوقائل ہو چکا تھا کہ لندن میں ایسے بھرپور عملی تجربے کے بعد ان کا بیٹا خاندانی کاروبار میں یقینا چند نئی اور منافع بخش راہوں کا اضافہ کرے گا۔ مگر ان کے لیے اصل مسئلہ یہ تھا کہ اس کام پر کتنا روپیہ صرف ہوگا، جس کے بعد طویل عرصے کے دوران تو شاید ان کے خاندا ن کو فوائد حاصل ہوں گے مگر بیٹے کو اس قسم کی تربیت دلانے سے فوری طور پر فائدے کی بہرحال کوئی امید نہیں

تھی۔ میرے والد نے اپنے انگریز دوست سے دریافت کیا کہ کراچی سے لندن میں قیام و طعام پر انہیں ماہانہ کس قدر رقم خرچ کرنا پڑے گی۔ متوقع اخراجات کے اعدادوشمار کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔اگرچہ تین سال کے دوران خرچ کی جانے والی رقم خاصی تھی مگروالد نے فیصلہ کیا کہ وہ میسرز گراہمز کے پاس لندن میں یہ رقم پیشگی جمع کرادیا کریں گے تاکہ ان کا بیٹا اپنی تربیت تسلسل کے ساتھ جاری رکھ سکے، انہوں نے سوچا کہ

کاروبار کی کامیابی تو ہوا کی طرح عارضی ہوا کرتے ہے اور یہ ہوا پیشگی اطلاع کے بغیر کسی بھی وقت اپنا رخ بدل سکتی ہے۔جیسا کہ آگے چل کر ایک بزنس مین، جو سخت کوشش سے ابھرا تھا، کی دانائی بے حد سود مند ثابت ہوئی۔ اس کے بغیر لندن میں میرے بھائی کا کیرئیردفعتاً ختم ہو جاتا۔ مگر میری والدہ بدستور اپنے مؤقف پر قائم تھیں۔ وہ اپنے لاڈلے بیٹے کو تین برس کے لیے کس طرح خود سے جدائی کرسکتی تھیں۔ والد نے

انہیں سمجھایا کہ محمد علی کو لندن بھیجنا نہ صرف خود ان کے نوجوان بیٹے کے بلکہ خاندانی فرم جناح پونجا اینڈ کمپنی کے بھی مفاد میں ہوگا اور پھر یہ کہ تین سال کا عرصہ ایسا زیادہ بھی نہیں، یہ وقت جلد ہی گزر جائے گا۔ کئی روز کی تسلی دلاسوں اور استدلال کے بعد بالآخر والدہ رضامند ہو گئیں مگر اس رضامندی کے لیے انہوں نے ایک شرط عائد کردی،ان کے نزدیک کسی غیر شادی شدہ نوجوان کو انگلستان بھیجنا خطرے سے

خالی نہیں ہو سکتا تھا۔ خاص طور پر محمد علی جیسے خوبرو نوجوان کا غیر شادی شدہ حالت میں وہاں جانا بالکل ٹھیک نہیں تھا۔ والدہ کو اندیشہ تھا کہ محمد علی انگلستان میں کسی انگریز لڑکی سے شادی نہ کرلیں اور اگر ایسا ہوا تو یہ جناح پونجا خاندان کے لیے ایک سانحے سے کم نہ ہوگا۔ والدان کے دلائل سے متفق ہو گئے مگر اب سوال یہ تھا کہ محمد علی کی شادی کہاں کی جائے۔ میری والدہ کے پاس اس کا جواب پہلے ہی سے

تیار تھا۔ وہ پانیلی کے اسماعیلی شیعہ خاندان کو جانتی تھیں جن سے ان کی دور کی رشتہ داری تھی۔ ان کی ایک لڑکی ایمی بائی شادی کے قابل ہو چکی تھی۔ والدہ کے خیال میں وہ محمدعلی کی دلہن بننے کے لیے بالکل موزوں تھی۔ میرے والد کو اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ مگر والدین نے مناسب سمجھا کہ وہ اپنے بیٹے کو بھی فیصلے سے آگاہ کردیں۔ اس زمانے میں بچوں کی شادیاں والدین ہی طے کرتے تھے۔ لڑکی اور لڑکے کے

پاس بڑوں کا فیصلہ قبول کرلینے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا تھا۔ یقینا والدین جانتے تھے کہ ان کے بچے کے لیے کیا بہتر ہے۔ شاید قائد اعظمؒ نے اپنی زندگی کا یہ واحد اہم فیصلہ کسی دوسرے کو کرنے کی اجازت دی تھی۔ وہ اپنی والدہ سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ ان کی بات سے انکار نہیں کرسکتے تھے۔ انہیں اپنے والد کی دنیاوی معاملات میں فہم و فراست پر اتنا بھروسہ تھا۔ انہیں یقین تھا کہ وہ شاید ہی کوئی غلطی

کریں گے، اس زمانے کے دستور کے مطابق انہوں نے ایک فرمانبردار بیٹے کے طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا اور اپنے والدین کا فیصلہ قبول کرلیا۔ اس طرح ان کی منگنی پانیلی کی ایمی بائی سے ہوگئی۔(بشکریہ دنیا)

موضوعات:



کالم



میڈم بڑا مینڈک پکڑیں


برین ٹریسی دنیا کے پانچ بڑے موٹی ویشنل سپیکر…

کام یاب اور کم کام یاب

’’انسان ناکام ہونے پر شرمندہ نہیں ہوتے ٹرائی…

سیاست کی سنگ دلی ‘تاریخ کی بے رحمی

میجر طارق رحیم ذوالفقار علی بھٹو کے اے ڈی سی تھے‘…

اگر کویت مجبور ہے

کویت عرب دنیا کا چھوٹا سا ملک ہے‘ رقبہ صرف 17 ہزار…

توجہ کا معجزہ

ڈاکٹر صاحب نے ہنس کر جواب دیا ’’میرے پاس کوئی…

صدقہ‘ عاجزی اور رحم

عطاء اللہ شاہ بخاریؒ برصغیر پاک و ہند کے نامور…

شرطوں کی نذر ہوتے بچے

شاہ محمد کی عمر صرف گیارہ سال تھی‘ وہ کراچی کے…

یونیورسٹیوں کی کیا ضرروت ہے؟

پورڈو (Purdue) امریکی ریاست انڈیانا کا چھوٹا سا قصبہ…

کھوپڑیوں کے مینار

1750ء تک فرانس میں صنعت کاروں‘ تاجروں اور بیوپاریوں…

سنگ دِل محبوب

بابر اعوان ملک کے نام ور وکیل‘ سیاست دان اور…

ہم بھی

پہلے دن بجلی بند ہو گئی‘ نیشنل گرڈ ٹرپ کر گیا…