اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سانحہ احمد پور شرقیہ پاکستان کے نہایت افسوسناک اوراندوہناک سانحات میں سے ایک ہے۔ عید سے چند دن قبل پیش آنے والے اس سانحہ نے جہاں پوری قوم کو افسردہ کر دیا ہے وہیں سانحات کے مواقعوں پر حکومتی انتظامات کی قلعی بھی کھول کر رکھ دی ہے۔ سانحہ احمد پور شرقیہ سے متعلق ان دنوں سوشل میڈیا پر ایک خبر گردش کر رہی ہے جس میں
بتایا جا رہا ہے کہ سانحہ احمد پور شرقیہ دراصل مکافات عمل ہے اور قدرت کا انتقام ہے۔ جس جگہ سانحہ پیش آیا یہاں گائوں کے لوگوں نے آج سے پانچ سال قبل ایک شخص کو زندہ جلا دیا تھا۔ اس شخص کا نام غلام عباس تھا اور اس کے قتل کی خبریں آج سے پانچ سال قبل زیر گردش خبروں کے مطابق جزوی طور پر پاکستانی میڈیا کی زینت بھی بنی تھیں۔سانحہ احمد پور شرقیہ اور غلام عباس کے قتل میں کیا مماثلت ہے اس حوالے سے یہاں سانحہ احمد پور شرقیہ کا خلاصہ قارئین کیلئے پیش کر کے غلام عباس کے قتل کا واقعہ بیان کیا جانا ضروری ہے ۔ ’’سانحہ احمد پور شرقیہ ‘‘ احمد پور شرقیہ میں40 ہزار لٹر پٹرول لے کر جاتا ہوا ٹینکر ایک موڑ کاٹتے ہوئے ٹائر پھٹ جانے سے الٹ گیا اور سارا پٹرول سڑک پر بہنے لگا۔ پاس ہی گاؤں کے لوگوں میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور ہر کوئی گھر سے بالٹیاں اور برتن اٹھا کر بھاگتا ہوا وہاں چلا آیا کہ پٹرول اکٹھا کر لیا جائے۔ پٹرول کافی مقدار میں تھا سارے گھرانے اس کام میں جت گئے اور عورتیں اور بچے بھی اس کام میں شامل ہوگئے۔ انہیں کوئی روکنے والا نہ تھا۔ تقریبا ایک گھنٹے تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور پھر اچانک وہ وقت آ گیا جس کا کسی کو علم نہ تھا، قیامت صغری برپا ہوگئی۔ کسی ناہنجار نے اس گرے ہوئے پٹرول کے پاس رمضان کے مہینے میں سگریٹ پینے کی
کوشش کی۔ پھر اچانک آگ کا ایک شعلہ لپکا اور دیکھتے ہی دیکھتے گرے ہوئے پٹرول کے آس پاس پر چیز جلنے لگی۔ آگ نے کچھ نہیں دیکھا کہ یہ انسان تھا، کھیت تھا یا کوئی موٹر سائیکل موٹر کار۔ آن کی آن میں آگ کی شدت تیز ترین ہوگئی۔ لوگوں نے فائر بریگیڈ کو طلب کیا جب آگ بجھائی گئی تو سب کچھ جل کر کوئلہ ہوچکا تھا۔ تقریباً 160 سے زائد لوگ اس قیامت خیز آگ میں جل کر مر گئے۔
کسی کی لاش شناخت کے قابل نہ رہی۔ لوگوں کو ڈی این اے کے ذریعے پہچانا جانے لگا اور کچھ کو ڈی این اے کے رزلٹ سے پہلےہی دفنا دیا گیا۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اب تک تقریبا 190 لوگ اس حادثے میں جاں بحق ہوچکے ہیں۔’’غلام عباس کا قتل‘‘ یہ احمد پور شرقیہ کا وہی گاؤں تھا جہاں آج سے 5 سال پہلے ایک مجذوب اور دماغی طورپر غیر متوازی شخص کو پٹرول چھڑک کر آگ لگادی گئی ۔
آج سے 5سال قبل اسی گائوں میں یکدم ایک شور اٹھا اور جنگل میں آگ کی طرح ایک خبر پھیل گئی کہ ایک شخص نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی ہے۔ لوگ شدید اشتعال میں آگئے اور اور ناہنجار کو ڈھونڈنے لگے، پولیس نے موقعے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس شخص کو فوری گرفتار کر کے حوالات میں ڈال دیا۔ لوگوں میں تھوڑا سکون آیا، مگر پھر اچانک گاؤں کی مسجد میں
اشعال انگیز اعلانات کے بعد بعد ہزاروں لوگوں کے ہجوم نے پولیس اسٹیشن کی طرف پیش قدمی شروع کردی۔ پولیس نے ہجوم کو روکنے کی کوشش کی مگر بے سود۔ اس لاؤ لشکر نے پولیس اسٹیشن کے گیٹ توڑ دیے اور حوالات میں بند اس شخص کو گھسیٹ کر باہر نکال لیا اور نعرے لگاتے ہوئے اور اسے مارتے ہوئے باہر لے گئے۔ شدید تشدد کے بعد اس نڈھال شخص پر ہجوم نےپٹرول چھڑک دیا اور اسے آگ لگا دی گئی۔ تقریباً 2000 لوگوں کا ہجوم اس شخص کے جلنے کا تماشہ دیکھتا رہا۔س شخص نے سسکتے سسکتے وہاں جان کی بازی ہار دی۔