کبھی کسی حالت میں ہار نہیں ماننا، یعنی جتنے مرضی برے حالات ہو جائیں مایوس نہیں ہونا۔ نیلسن منڈیلا نے کل ستائیس سال ساؤتھ افریقہ میں قید میں گزارے تھے اور اس کے بعد جب وہ آزاد ہوا تو جمہوریت پر بیسڈ الیکشنز کے ذریعے وہ ساؤتھ افریقہ کا صدر منتخب ہوا۔ پوری عوام اس کی دیوانی تھی۔ نیلسن منڈیلا کہتا ہے کہ اگر کسی بھی انسان کا کریکٹر جانچنا چاہو تو اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ تم اس کو اس وقت دیکھو جب وہ ہار جائے۔ انسان صرف وہی مضبوط ہوتا ہے
جو سو بار گر کر سو بار اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ آپ کی کامیابی آپ کی اصلیت ہرگز نہیں دکھا سکتی لیکن آپ کی ناکامی آپ کا اصلی چہرہ دکھاتی ہے۔ سب لوگوں کا نظریہ ایک سا ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ اس سے بہتر کیا بات ہو سکتی ہے کہ تمام انسان ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور اگر ہم اپنے بیچ کے اس فرق پر لڑنا بند کر دیں اور ایک دوسرے کے مختلف نظریے کو سنیں اور اس سے بہت کچھ سیکھیں تو یہ دنیا کتنی اچھی جگہ بن سکتی ہے۔ ہم سب انسان ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔پھر اتنی لڑائی جھگڑے کی کیا ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ہم سب آگے بڑھتے رہیں اور ایک دوسرے سے لڑائی اور مقابلہ بازی نہ کریں تو دنیا بھر میں ترقیاتی کام ہونے لگیں۔ کوئی بھی چیز جو آسانی سے مل جائے وہ کسی قابل نہیں ہوتی۔ صرف وہ چیز قابل قدر ہے جو ان تھک اور مسلسل محنت سے حاصل کی گئی ہو۔ جو آسانی سے آتے ہیں وہ آسانی سے واپس بھی چلے جاتے ہیں۔اگر کوئی کام بہت دشوار لگے تو سمجھ جاؤ کہ اسے ہر کوئی نہیں کر سکتا تھا۔ اور سب کچھ ہار کر بھی ہمیشہ امید رکھو کہ تم ایک دن ضرور عروج دیکھو گے۔ دنیا کا سب سے موذی ہتھیار تمہاری تعلیم ہے۔ اس پر بہت زور رکھو۔ جتنا علم حاصل کرو گے اتنا ترقی کی راہیں آسان ہوں گی۔ جو انسان کچھ بھی سیکھتا ہے وہ اس کے کام ضرور آتا ہے۔ جو لوگ آپس میں لڑتے ہیں اس کی اصل وجہ علم کی کمی اور ڈر ہوتا ہے اور دونوں کا علاج صرف زیادہ علم حاصل کرنے سے کیا جا سکتا ہے۔
ہمیشہ یاد رکھو کہ کوئی کام ایسا نہیں ہے جو تم نہ کر سکتے ہو۔ بس بات محنت کی ہے۔ ہر انسان سمجھتا ہے کہ وہ باقیوں سے پیچھے رہ گیا ہے، یا اس میں عقل یا ہنر کی کمی ہے ۔ جب وہ نیا کام دیکھتا ہے تو سوچتا ہے کہ میں کبھی بھی یہ نہیں کر سکتا مگر جب وہ لگا رہتا ہے اور کام مکمل کر لیتا ہے تو حیران رہ جاتا ہے کہ یہ میں نے کیسے کر لیا؟ تمہاری حکمت اور شفقت ہر دور میں تمہیں بہت طاقت ور بناتے ہیں۔آج کے زمانے میں لوگ نرم دل لوگاں کو بے وقوف گردانتے ہیں
مگر نیلسن منڈیلا کے مطابق ہر زمانے میں ایک عقلمند اور شفیق آدمی لوگوں کو متاثر کرتا رہے گا اور وہ اس کی بات اور اعمال کی ہمیشہ پیروی کرتے رہیں گے۔ اسلام کی طرح نیلسن منڈیلا کا بھی یہی موقف ہے کہ انسان کا رنگ اور نسل صرف پہچان کے لیے مختلف ہیں اور اس کے مختلف ہونے سے کسی کو کسی پر کوئی برتری حاصل نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ مت دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے ہمیشہ یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے۔ جیت ہمیشہ پیار کی ہوتی ہے۔
نیلسن منڈیلا نے اپنی زندگی کے ستائیس سال ایک کوٹھری میں مقید گزارے۔ ایسا انسان اگر اتنا صبر کرنے کے بعد بھی اتنی مثبت باتیں کر سکتا ہے تو کسی بھی انسان کی اپنی زندگی سے شکایت کرنا صرف بہانہ بازی ہوتی ہے۔ دنیا میں کوئی مشقت کسی کو تھکا نہیں سکتی، کوئی حوصلہ شکنی انسان کو ہرا نہیں سکتی اگر وہ کسی کو اپنے حواس پر ہاوی نہ ہونے دے۔ ہر انسان کو نیلسن منڈیلا سے سیکھنے کی ضرورت ہے کہ کسی قسم کے حالات بھی آپ کا عزم اور حوصلہ کبھی نہیں توڑ سکتے۔
اپنے آپ کو سمجھو۔ اپنے آپ پر غوروفکر کرو، شاید اس نے ستائیس سال جیل میں بند رہ کر اپنے وجود کے بارے میں بہت زیادہ سوچ بچار کی ہو گی۔ اور انسان کی غور و فکر اسے اس مقام پر پہنچا دیتی ہے کہ وہ سمجھ جاتا ہے کہ اس میں کچھ خاص نہیں سب انسان اللہ نے خلیفہ بنا کر اتارے ہیں اور اگر کوئی بھی اپنیصلاحیتوں کا پورا پورا استعمال کرے تو دنیا کو رہنے کے لیے بہت بہتر جگہ بنا سکتا ہے۔