سابق بیوروکریٹ اور کالم نگار اوریا مقبول جان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ جب روس میں 1917ء میں بالشویک انقلاب آیا تو انھوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ تمام سودی بینکاری کو ختم کردیا اور ان کا غیر سودی بینکاری نظام 75 سال تک چلتا رہا۔دنیا بھر میں بسنے والے یہ مسلمان ان کمیونسٹوں جتنی غیرت بھی نہیں رکھتے تھے کہ اپنا نظام معیشت خود ترتیب دے دیتے۔
پاکستان کی تو حالت ہی عجیب ہے کہ یہاں 1999ء میں سپریم کورٹ کا فل بینچ سودی بینکاری کے خلاف فیصلہ دیتا ہے تو سب کے سب اس کے خلاف متحد ہوجاتے ہیں۔ ہر کوئی پوچھتا پھرتا ہے کہ کوئی متبادل ہے، بتاؤ ہم اپنی معیشت کیسے چلائیں۔کس قدر متعصب ہیں یہ سود کے حمایت میں لکھنے اور سوچنے والے کہ جب 2008ء میں دنیا بھر میں مالیاتی بحران ہوا تو تمام ممالک کے بینکوں نے سود مکمل طور پر ختم کردیا۔ لیکن یہ لوگ پھر بھی اس امید پر زندہ رہ رہے ہیں کہ ایک دن دنیا بحران سے نکلے گی تو سود پھر واپس آجائے گا۔ جاپان کے حکومتی بینک نے تاریخ میں پہلی دفعہ دسمبر 1995ء میں صفر سودی پالیسی Zero Interest Rate Policy نافذ کی تھی اور حکومتی سطح پر سود ختم کردیا تھا اور اب اس ملک کے پرائیویٹ بینکوں نے بھی سود کو خیرآباد کہہ دیا۔ جاپان کی ترقی کودیکھتے ہوئے یورپی سینٹرل بینک Europeon Central Bank نے 18 ماہ قبل حکومتی سطح پر منفی شرح سود کا آغاز کیا ہے، دیکھیں وہاں کے کمرشل بینک کب صفر سے منفی پہ آتے ہیں اور بینک بھی سرمایہ رکھنے پر کٹوتی کرنے لگیں گے۔ یہ جاپان ہے جس میں آڈیو کیسٹ سے لے کر کاروں، ٹرکوں، بلڈوزروں، کمپیوٹروں اور شاید ہر قسم کی مصنوعات کے کارخانے پوری دنیا کو مصنوعات بیچتے ہیں وہ بینکوں سے آزاد ہیں اور سود سے مبرا۔ جاپان کا نظام معیشت سود سے پاک ہوچکا ہے اور یہ دنیا سے الگ