1965 ء کی جنگ کے دوران جنرل شیر علی واہگہ بارڈر کی نگرانی پر معمور تھے۔ جنرل شیر علی نے ایک آدمی کو سادہ لباس میں ملبوس دیکھا جو مورچوں میں تعینات فوجی جوانوں کے ساتھ مصافحہ کررہا ہے ۔ انہوں نے ہیلی کاپٹر کے پائلٹ سے کہا کسی مناسب جگہ پر ہیلی کاپٹر اتارو میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ ان حالا ت میں جب ہر طرف سے گولیاں برس رہی ہیں۔
فضا سے جنگی جہاز آگ برسا رہے ہیںتو یہ قوم کا ہمدرد کون ہے ؟ جنرل شیر علی نیچے اترے تو نواب آف کالا باغ امیر محمد خان فوجی جوانوں میں بسکٹ تقسیم کررہے تھے ۔ جنرل شیر علی نےنواب امیر محمد خان سے مصافحہ کے بعد کہاکہ’’ جناب آپ جیسے لیڈروں کی قوم کو ضرورت ہے، جو لوگ اس طر ح کے کٹھن حالات میں اپنی فوج کے ساتھ اظہار ِیکجہتی کے لئے دشمن کی گولی کے سامنے کھڑے ہوسکیں وہ اپنے وطن کے لئے کچھ بھی کرسکتے ہیں ‘‘۔ نواب صاحب نے جواب دیا’’ جنگیں ہمیشہ قومیں لڑا کرتی ہیں اور میں اس قوم کا ایک فرد ہوں ‘‘۔ نواب صاحب نے جنرل شیر علی کو بتایا کہ میں نے اپنے جوانوں کے لئے سوجی ، ایلسی اور دیسی گھی کی آمیزش سے خاص بسکٹ تیار کرائے ہیں ۔ ان میں خاصی توانائی ہوتی ہے ۔ یہ جوانوں کو تازہ دم رکھیں گے ۔ نواب صاحب کے پاس جب کالاباغ میں کوئی اہم شخصیت دورہ کرتی تو اس کو خوش کرنے کے لئے بہت سے اقدامات کیے جاتے ۔ معزز مہمان کے عہدے اور مزاج کو مد نظر رکھتے ہوئے تفریحی
پروگراموں کا اہتمام کیا جاتا۔ سکول کے اساتذہ ، طلبا اور عام شہری تقریب کی رونق کو دوبالا کرنے کیلئے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ۔ وی آئی پی مہمانوں کی آمد کے موقع پراستاد محمدافضل خان ، غلام رسول ، اکرم شاہ ، رمضان کروڑا اور اولیاء خان رضا کارانہ طور پرا پنی خدمات اسٹیٹ کے حوالے کردیتے ۔ مہمانوں کو خوش کرنے کیلئے اساتذہ اور طلباء کشتیوں میں سوار ہو کر
وانڈھا ککڑانوالہ چلے جاتے ۔ وہاں اندھیرا چھا جانے کا انتظار کیا جاتا۔ موٹے گتے کے دیے بنا کر ان میں سر سوں کا تیل بھر دیا جاتا۔ روئی تیل میں ڈبو کر اس کا ایک سرا دیے کے کنارے پر رکھ کر آگ لگائی جاتی ۔ پانی کے بہاؤ کو دیکھتے ہوئے اس کی سطح پر دیے تیرانے کا سلسلہ شروع ہوتا ۔ پچا س دیے ایک ساتھ چھوڑ ے جاتے تووہ بہاؤ کے ساتھ ایک لمبی قطارکی شکل اختیار کرلیتے ۔ قمقموں کی یہ لہر جب ٹھاکا سے پیپل بنگلہ کی طرف آتی
تو کیا خوبصورت منظر ہوتا۔ دور سے ایسا لگتاجیسے پانی میں آگ لگی ہوئی ہے۔ مہمان اس خوبصورت منظرکو دیکھ کر خوش ہوتے ۔ ایوب خان کالاباغ کے دورے پر آئے تو حسب ِ روایت ان کے استقبال کی بھر پور تیاری کی گئی۔لاری اڈا سے کالاباغ شہر تک سڑک کو اچھی طرح صاف کیاگیا ۔ پانی کا چھڑکاؤ کرنے کے بعد کناروں پر چونا ڈالا گیا ۔
پولیس تمام انتظامات کا جائزہ لے رہی تھی ۔ کنٹرول نواب صاحب کی اپنی انتظامیہ کے ہاتھ میں تھا۔ کالاباغ شہر کے تمام سکولوں کے بچے ، اساتذہ اور عوام کو سڑک کے دونوں اطراف میں کھڑا کیا گیا ۔ ایک طرف کے لوگوں کے پاس جھنڈیاں اور دوسری طرف بچے ہاتھوں میں پھولوں کی پتیاں فضا میں بلند کرنے کے لئے تیار کھڑے تھے۔
ایوب خان کی گاڑی جونہی نمودار ہوئی ۔ فضا استقبالی اورتحسین کے نعروں سے گونج اٹھی ۔ بچے پھولوں کی پتیاں نچھاور کر رہے تھے۔ بڑوں نے ہاتھ ہلا کر خوش آمدید کہا ۔ ایوب خان کی گاڑی جونہی بوڑھ بنگلہ کے قریب پہنچی نواب صاحب کی کچہری کے مزاحیہ فنکاروں کا ایک رکن غلام محمد ماچھی اپنی ٹیم کے ہمراہ سڑک کے درمیان میں آکر ناچنے لگا ۔
پولیس اہلکاروں نے آگے بڑھ کر روکنے کی کوشش کی تو نواب صاحب نے روک دیا ۔ ایوب خان نے جب دیکھا کہ نواب صاحب اس پر توجہ دے رہے ہیں تو گاڑی روک دی اور ناچنے والوں کا شکریہ ادا کیا اور پھر گاڑی بنگلے کی طرف لے گئے ۔ ایوب خان کو شام کے وقت غروب ِ آفتاب کا خوبصورت نظارہ دکھانے کے لئے عبدالحمید اور فیض رسول ملاح کشتیوں پر
وانڈھا ککڑانوالہ کی طرف لے گئے۔ ایوب خان نے غروب ِ آفتاب کا منظر دیکھ کر کہا، یہ دنیا کے چند خوبصورت نظاروں میں سے ایک ہے ۔ نواب صاحب نے ایوب خان سے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میرا ارادہ اس علاقے کو مزید خوبصورت بنانے کا ہے ۔ میںسیاحوں کی بآسانی علاقے تک رسائی کیلئے اتلا پتن سے سالٹ مائنز تک پختہ سڑک تعمیرکروانا چاہتا ہوں ۔