محمد شاہ مکران کا ایک بادشاہ گذرا ہے-ایک مرتبہ وہ اپنے سپاہیوں کے ساتھ شکار کو نکلا -بادشاہ سلامت شکار کھیل رہے تھے -سپا ہیوں کے ہاتھ ایک بوڑھی عورت کی گائےآگئی -انہوں نے اسے ذبح کر کے اس کا گوشت بھون کر کھا لیا -بڑھیا نے کہا کہ مجھے پیسے دے دو تا کہ میں کوئی اور گائے خرید لوں -انہوں نے پیسے دینے سے انکار کر دیا –
اب وہ بڑی پریشان ہوئی -اس نے کسی عالم کو بتا یا کہ میرا تو روزی کا دارو مدار اسی گائے پر تھا – یہ سپا ہی اس کو بھی کھا گئے -اور اب پیسے بھی نہیں دیتے -اب میں کیا کروں؟ انہوں نے کہا کہ بادشاہ نیک آدمی ہے -لہذا تم جا کر بادشاہ سے بات کرو -اس نے کہا کہ مجھے یہ سپا ہی آ گے جانے نہیں دیتے -انہوں نے کہا کہ میں تجھے ایک طریقہ بتا دیتا ہو ں کہ بادشاہ کو پرسوں اپنے گھر جانا ہے -اس کے گھر کے راستہ میں ایک دریا ہے اور اس کا ایک ہی پل ہے -وہ اس پر سے لازمی گذرے گا -تم اس پل پر پہنچ جانا اور جب بادشاہ کی سواری وہاں سے گذر نے لگے تو اس کی سواری ٹھہر کر تم اپنی بات بیان کر دینا -چنانچہ تیسرے دن بڑھیا وہاں پہنچ گئی – بادشاہ کی سواری پل پر پہنچی تو بڑھیا تو پہلے ہی انتظار میں تھی -اس نے کھڑے ہو کر بادشاہ کی سواری روک لی -بادشاہ نے کہا، اماں! آپ نے میری سواری کو کیوں روکا ہے؟ بڑھیا کہنے لگی، محمد شاہ! میرا اور تیرا ایک معاملہ ہے -اتنا پوچھتی ہوں کہ تو وہ معاملہ اس پل پر حل کرنا چاہتا ہے یا قیامت کے دن پل صراط پر حل کرنا چاہتا ہے؟ پل صراط کا نام سنتے ہی بادشاہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے -وہ نیچے اترا اور کہنے لگا،، اماں، میں اپنی پگڑی آپ کے پاؤں پر رکھنے کو تیار ہوں، آپ بتائیں کہ آپ کو کیا تکلیف پہنچی ہے؟ مجھے معافی دے دو -میں قیامت کے دن پل صراط پر کسی جھگڑے کا سامنا کرنے کے قابل نہیں ہوں -چنانچہ اس بڑھیا نے اپنی بات بتادی -بادشاہ نے اسے ستر گایوں کے برابر قیمت بھی دے دی اور معافی مانگ کر اس بڑھیا کو راضی بھی کیا تا کہ قیامت کے دن پل صراط پر اس کا دامن نہ پکڑے -اللہ تعالٰی ہم سب عدل و انصاف کر نے کی توفیق عطا فرمائے آمین