سپہ سالار رات کے وقت لشکر کا گشت لگا رہے تھے جب انہوں نے ابو محجن ثقفی کو شراب پیتے دیکھا تو غصے سے آگ بگولا ہو گئے۔ فرمایا “ اپنی جان کے دشمن تو نے تو اپنے جہاد اور عبادت کا ثواب بھی کھو دیا خدا کی قسم میں تم پر ضرور شرعی حد جاری کروں گا اور ابو محجن ثقفی کو گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا دوسرے دن صبح کو جب میدان کا ر زار گرم ہوا تو سپہ سالار سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سخت بیمار ہوگئے اور میدان میں جانے کے قابل نہ رہے ۔
قادسیہ کی لڑائی تاریخ اسلام میں عظیم لڑائی مانی جاتی ہے اس لئے کہ لاکھوں کا لشکر لے کر رستم اس لڑائی میں میں جام شہادت نوش کیا اس دن صبح سے ہی ایرانیوں کا پلہ بھاری نظر آ رہا تھا ایک اونچے ٹیلے پر بیٹھ کر حضرت ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ لشکر کی کمان کر رہے تھے ابو محجن قید خانے سے دریچے سے لڑائی دیکھ رہے تھے لڑائی کی حالت دیکھ کر ابو محجن سے رہا نہ گیا حضرت سعدؓ کی بیوی سلمٰی کو جو ان پر نگران مقرر تھیں بلا کر کہا کہ ” خدا کے لئے اس وقت مجھے چھوڑ دو لڑائی سے اگر زندہ بچا تو خود آ کر بیڑیاں پہن لوں گا” سلمٰی سے ابو محجن کی یہ بے چینی دیکھی نہ گئی اور انہوں نے ان کی بیڑیاں کاٹ دیں۔ ابو محجن نے سعد کے گھوڑے پر زین کسا نیزہ سنبھالا اور بجلی کی طرح میدان میں پہنچ گئے سب سے پہلے رستم کے قریب پہنچے اور تاک کر ایسا نیزہ مارا کہ رستم کے سینے کے آرپار ہو گیا۔ دور ٹیلے پر سے اس شہ سوار کی بہادری دیکھ کر حضرت سعد رضی اللہ عنہ حیران ہو کر کہنے لگے کے حملے کا انداز تو ابو محجن جیسا ہے مگر وہ تو قید میں ہے شام ہوئی تو ابو محجن نے قید خانے میں آ کر خود بیڑیاں پہن لیں۔ حضرت سعد کی بیوی سلمیٰ نے دن کا واقعہ اپنے شوہر کو سنایا۔ سعدؓ اسی وقت قید خانے میں آئے اور یہ کہہ کر ابو محجن نے کہا سپہ سالار جب تم نے مجھے رہا کر دیا تو سن لو کہ اب میں سچے دل سے شراب سے توبہ کرتا ہوں جب تک زندہ رہوں گا اس نابکار کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا۔ ابو محجن نے موت تک اپنے اس عہد کو نبھایا۔