اتوار‬‮ ، 24 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

گستاخ رسول ﷺ کا انجام

datetime 21  دسمبر‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مجاہدین کی صف میں کھڑے ہونے کے بعد جب میں نے دائیں بائیں جانب نظر کی تو کسی قدر مایوس ہوا کہ میری دونوں جانب انصار کے دو کم عمر بچے کھڑے تھے میں سوچنے لگا کہ ان بچوں سے کیا بنے گا؟ تگڑے جوان ہوتے تو وہ اس معرکے میں میرے کام آتے یہ بچے میرے کس کام کے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ فرماتے ہیں کہ ابھی میں انہی خیالات میں کھویا ہوا تھا کہ جنگ شروع ہو گئی۔

پہلی اور آخری فیصلہ کن جنگ۔ جسے تاریخ میں غزوہ بدر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ایسی جنگ جس میں نہتے لوگوں کا قریش کے سور ماؤں سے مقابلہ تھا۔ ایک طرف بے سرو سامانی دوسری طرف تمام مادی ذرائع و سائل۔ ایک طرف تین سو تیرہ فاقہ کش و گلیم پوش لوگ اور دوسری طرف ایسے ایسے صاحب ثروت کہ ان کا ایک ایک آدمی ایک ہزار کے لشکر کا تنہا میزبان بن سکتا تھا۔ ایک جماعت کو اپنی تعداد و سامان رسد اسلحہ اور آزمودہ کاری پر ناز تھا۔ ہر فرد طاقت کے نشے میں چور اکڑ اکڑ کر چل رہا تھا اور دوسری جماعت کا سارا سرمایہ اور سارا اثاثہ صرف ایمان و یقین تھا۔ سیدنا علی مرتضیٰ شیر خدا کرم اللہ وجہہ کے پاؤں دہکتے ہوئے ریگستان میں چلتے وقت جلنے لگے کہ پاؤں میں جوتے نہیں تھے۔ نبی ﷺ سے شکایت کی تو جواب ملا علی! جوتے نہیں تو کیا ہوا؟ پاؤں میں چیتھڑے لپیٹ لو۔ اور شیر خدا نے تعمیل ارشاد کی۔جنگ زور و شور سے جاری تھی کہ جناب عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے ان دو نو عمر انصاری بچوں نے سوال کیا چچا جان! آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں؟ میں نے کہا ہاں مگر تم کیوں پوچھتے ہو؟ بچوں کی آنکھوں سے شعلے نکلنے لگے۔کہا! ہم نے سنا کہ وہ ہمارے سرکار ﷺ کی شان میں گستاخیاں کرتا ہے خدائے واحد ولا یزال کی قسم اگر آج وہ ہمیں مل گیا

تو یا وہ نہیں یا ہم نہیں۔ اتفاقاً گھوڑے پر سوار اور لوہے میں غرق ابوجہل لشکر کفار میں دوڑ بھاگ کرتا ہوا نظر آ گیا میں نے بچوں سے کہا۔ وہ ہے ابوجہل۔ اتنا سننا تھا کہ دونوں بچے باز کی طرح اس پر جھپٹ پڑے ایک نے گھوڑے پر حملہ کیا اور ابوجہل گھوڑے سے گر پڑا اور دوسرے نے تلوار کا ایسا وار اس کی ٹانگ پر کیا کہ پھر ابوجہل اٹھ نہ سکا۔ آخر حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے جا کر اس کا سر تن سے جدا کیا۔

ابوجہل کے بیٹے عکرمہ نے یہ حال دیکھا تو پلٹ کر آیا اور ایک لڑکے کا ہاتھ کاٹ دیا۔ ہاتھ کٹ گیا مگر دونوں شہ باز معاذ بن عمر اور معوذ بن عفرا رضی اللہ عنہما خوشی سے سرشار تھے کہ انہوں نے ایک سخت گستاخ زبان کو ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیا ہے اسلامی تاریخ آج ایسے ہی ستاروں پر کمند ڈالنے والے جوانوں کی منتظر ہے۔

 

موضوعات:



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…