حضرت بھلے شاہ قصوری نے بڑی کوششوں اور سخت تکالیف برداشت کرنے کے بعد بہت مشکل سے اپنے پیر و مرشد حضرت شاہ عنایتؒ کی ناراضگی رفع کر کے دوبارہ ان کی خوشنودی حاصل کی اور اس غیر متوقع خوشی کی تقریب میں انہوں نے اپنی منت اتارنے کیلئے اظہار خوشی کے طور پر کافی مقدار میں مٹھائی تقسیم کیلئے منگوائی اور حضرت شاہ عنایتؒ کے حکم سے اس کے تقسیم کرنے کیلئے اٹھے تو دریافت کیا۔
’’یا پیر و مرشد الٰہی تقسیم عمل میں لائی جائے یا محمدی؟‘‘ شاہ عنایتؒ اس عجیب سوال کو سن کر جواب دینے میں کچھ متامل و متوقف ہوئے۔ آخر دانا بزرگ تھے۔ فرمایا ’’تکریم و تقدیم تو ذات الٰہی کو ہی ہے لہٰذا الٰہی تقسیم ہی عمل میں لانا بہتر ہے‘‘۔ مٹھائی لینے کے لئے بچے، بوڑھے اور جوان جمع ہو گئے۔حضرت بھلے شاہ نے اس مجمع کثیر میں بغیر کسی امتیاز کے صرف چند ایک بچوں اور بوڑھوں کو وہ تمام مٹھائی تقسیم کر دی او رباقی لوگوں کو رخصت ہونے کے لئے کہہ دیا۔ یہ شکایت حضرت شاہ عنایتؒ کے پاس پہنچی۔ آپ نے اس غلط اور نامکمل تقسیم کا باعث دریافت فرمایا ’’تو بھلے شاہ نے کہا کہ خود حضور ہی تقسیمکی اجازت بخشتے تو مساوات اسلامی کو مدنظر رکھتے ہوئے جو کہ اصول اسلام کا توحید و رسالت کے عقیدے کے بعد سب سے زیادہ قابل قدر زریں اصول ہے، سب کو بحصہ رسدی مساوی تقسیم کر دیا؟۔حضرت شاہ عنایتؒ نے فرمایا کہ ایک ناراضگی سے تم کو خلاصی کئے ہوئے ابھی دیر نہیں ہوئی۔ لیکن یہ بات کہہ کر تم نے دوسری ناراضگی کا سبب پیدا کر لیا۔ آئندہ کیلئے یاد رکھو کہ اگرچہ بظاہر دنیا کے تمام معاملات میں یہی تقسیم کارفرما نظر آ رہی ہے لیکن مصلحت الٰہی میں کسی کو چون و چرا کرنے اور دم مارنے کی گنجائش نہیں ہے۔ ہماری فہم ناقص بحر حکمت و مصلحت کی گہرائیوں تک پہنچنا تو درکنار، سطح تک پہنچنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ آئندہ ایسے معاملات میں ہرگز لب کشائی نہ کیجیو۔