625ھ میں سیل تاتار نے تمام عالم اسلام کو تہہ و بالا کر ڈالا۔ وحشی تاتاری 627ھ میں بلاداسلام کو تاخت تاراج کرتے ہوئے نیشاپور بھی آ پہنچے۔ خواجہ فرید الدین عطارؒ وہیں مقیم تھے۔ ایک تاتاری سپاہی نے ہنگامہ داروگیر میں ان کو بھی پکڑ لیا اور اپنے ساتھ لے چلا برابر سے ایک دوسرے سپاہی نے کہا ’’اس بڈھے کو ہزار روپے میں فروخت کر دو‘‘۔
خواجہ صاحب نے پہلے سپاہی سے کہا ’’اتنی قیمت پر مجھے مت بیچنا میری قیمت ہزار روپے سے کہیں زیادہ ہے‘‘۔سپاہی انہیں کھینچتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ راستے میں ایک سپاہی نے اس سے کہا۔ اس بڈھے کو گھاس کے ایک گٹھے کے عوض مجھے دے دو۔ اب خواجہ صاحب نے پہلے سپاہی سے کہا بھئی اب مجھے ضرور بیچ ڈالو۔ میری قیمت تو اس گھاس کے گٹھے سے بھی کم ہے۔ سپاہی یہ سن کر جھلا اٹھا اور اس نے تلوار کے ایک وار سے خواجہ صاحبؒ کو شہید کر ڈالا۔ ایک اور روایت میں ہے کہتاتاری نیشاپور کی اینٹ سے اینٹ بجاتے جب خواجہ عطارؒ کی خانقاہ میں گھسے تو آپ سترہ دریشوں کے ساتھ یادالٰہی میں مشغول تھے۔ تاتاریوں نے بے گناہ درویشوں کو بے دریغ قتل کرنا شروع کر دیا۔ خواجہ صاحبؒ کا دل ان کی مظلومی پر تڑپ اٹھا اور وہ پکار اٹھے۔ یہ کیسی تیغ قہاری ہے یہ کیسی تیغ جباری ہے۔ جب تاتاری خواجہ صاحب کی طرف بڑھے تو آپ نے مسکرا کر فرمایا۔ سبحان اللہ یہ کتنا بڑا کرم ،عزت افزائی اور احسان ہے یہ کہہ کر تلوار کے نیچے سر رکھ دیا اور جام شہادت نوش فرمایا۔ اس وقت آپ کی عمر ایک سوچودہ برس کی تھی۔