مقامی آبادی کا عقیدہ ہے نانگا پربت کی چوٹی پریوں کی ملکہ کی رہائش گاہ ہے‘ داستانوں میں آیا ہے کہ وہ ایک ایسے برفانی قلعے میں رہتی ہے جو شفاف اور دبیز برف کا بنا ہوا ہے
قدرت کی نیز نگیوں اور مناظر کا انسان کی روحانی مسرت اور فیضان سے ہمیشہ ایک گہرا تعلق رہا ہے۔ لہلہاتے کھیت ہوں ‘دشت و صحرا پھیلی ہوئی شاداب وادیاں ہوں یا سمٹے ہوئے دامان کوہ‘ سوچنے اور سمجھنے والے کے لیے
مزید پڑھئے: کرپشن،سندھ حکومت نے وفاقی اداروں کے چھاپوں کے خاتمے کیلئے ”بہترین حل“ ڈھونڈ نکالا
ان سب میں ایک پیغام پنہاں ہے۔ ایسے تمام مقامات رو حانی مسرت حاصل کرنے کا ایک موثر ذریعہ ہوتے ہیں:
علم کے حیرت کدہ میں ہے کہاں اس کی نمود
گل کی پتی میں نظر آتا ہے رازِ ہست و بود
اردو کا سب سے بڑا طنز گو شاعر اکبر بھی جب قدرت کو اس کے اصلی روپ میں دیکھتا ہے تو طنز و مزاح کو چھوڑ کر یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے:
مجھ کو دیوانہ بنا دیتا ہے فطرت کا جمال
عارض گل سے خبر ملتی ہے روئے یار کی
قدرت کی ان فیاضیوں سے ویسے تو ہر شخض اپنے شہر کی کال کو ٹھری سے باہر نکل کر پچھلے پہر کو طلوع و غروب آفتاب کے وقت یاتاروں بھری راتوں میں کسب فیض کرسکتا ہے لیکن قدرت کا یہ حسن اگر پوری بہار پر دیکھناہو تو شمال کے فلک بوس اور برف پوش پہاڑوں سے زیادہ موزوں کوئی مقام نہیں۔ ان ہی پہاڑوں میں قدرت کی ایک حسین و جمیل جلوہ گاہ نانگا پربت کی برف پوش چوٹی ہے۔ جہا ں خالق کائنات کی عظمت و جلال اس کے حسن و جمال کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ یہاں انسان خود کو قدرت سے قریب ہی نہیں بلکہ قدرت کی گود میں پاتا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں خدا کی کبریائی کے سامنے سر بسجود ہو جانے کو جی چاہتا ہے ۔
نانگا پربت کو کلر ماؤنٹین یعنی قاتل پہاڑ بھی کہا جاتا ہے ۔اسے سب سے پہلے سر کرنے کا سہرا ایک جرمن آسٹریلین ہر من کے سر بندھا جس نے ۳ جولائی ۱۹۵۳ء میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے علاوہ اطالیہ سے تعلق رکھنے والے ایک مشہور کوہ پیما مسیسنر ہے جس نے اسے سر کیا ۔ یہ شخض کوہ پیما ئی کا ایک معجزہ ہے‘ ایک عجوبہ ہے ایک تو وہ تن تنہا چوٹی تک پہنچتا ہے اور دوسرا یہ کہ بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ پر بھی وہ آکسیجن کے بغیر جاتا ہے کیونکہ اسکے پھپھڑوں میں قدرت کی طرف سے ایسی گنجائش رکھی گئی ہے کہ وہ بلندی پر بھی کام کر تے رہتے ہیں۔ مسیسنر نے دنیا کی قریباََ تمام بلند چوٹیوں کو اپنے قدموں تلے روندا ہے جس میں نانگا پر بت بھی ایک ہے ۔نانگا پربت کی چوٹی پر برف نہیں ٹھہرتی اس لیے اسے ’’نانگا پہاڑ ‘‘ کہا جا تا ہے۔ نانگا پربت جانے والے کوہ پیماء کے راستے میں رائے کوٹ کا خوبصورت پل جس کے بہت نیچے سندھ کا مٹیالا پانی ایک گہری گونج کیساتھ بہتا ہے۔ پل کے بائیں ہاتھ پولیس کیبن اور دا ئیں جانب شنگر یلا کے ساتھ ایک پتھریلا راستہ اوپر جاتا ہے۔ نانگا پربت محض ایک پہاڑ نہیں یہ ایک طلسم ہے جو ہر دیکھنے والی آنکھ کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے ۔ یہ طلسم دوسو سال سے کوہ پیماؤں کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے لیکن جو بھی اس کی طرف جاتا ہے وہ واپس نہیںآتا اسی وجہ سے اسے کلر ماؤنٹین ( قاتل پہاڑ) کہا جاتا ہے۔
نانگا پربت کے قدموں میں ایک طویل گلیشئیر سجدہ کناں ہے گلیشئیر کا سر نانگا پربت کے قدموں میں ہے اور تیس چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر جنگل کے درمیان فیری میڈو ہے۔ پریوں کا مسکن ‘پریوں کی چراگاہ ہو شر با حسن و طلسم کی وجہ سے آسٹریلین کوہ پیماء ہر من کو ہل نے ۱۹۵۳ء میں اسے فیری میڈو (Fairy meadows) کا نام دیا تھا۔فیری میڈوز ایک افسانوی شہرت رکھتی ہے ۔ تاروں بھری رات میں بلندیوں سے اتر کر یہاں رقص کرنے والی پریوں کے قصے لوک داستانوں کا حصہ بن چکے ہیں۔ مقامی آبادی کا عقیدہ ہے کہ نانگا پربت کی چوٹی پریوں کی ملکہ کی رہائش گاہ ہے۔ داستانوں میں آیا ہے کہ وہ ایک ایسے برفانی قلعے میں رہتی ہے جو شفاف اور دبیز برف کا بنا ہوا ہے اور برف کے بڑے بڑے مینڈک اور برف کے ایسے سانپ جو کئی کلومیٹر لمبے ہیں اس ملکہ کی حفاظت پر مامور ہیں اور ان علاقوں میں ر ہنے والی عورتیں رنگین کپڑوں اور شوخ زیوروں سے اجتناب کرتی ہیں کیونکہ انہیں پہننے سے پریاں ان سے حسد کرسکتی ہیں اور ان پر جادو کرسکتی ہیں۔ پامیر اور تبت ’’ بام دنیا ‘‘ کہلاتے ہیں لیکن وہاں بھی کوئی پہا ڑ نانگا پر بت سے اونچا نہیں ۔ یہ فخر صرف ہمالیہ اور قراقرم کو حاصل ہے۔ اگرنانگا پربت دنیا کی چھٹی اونچی چوٹی ہے تو اس کو دوسری بلند تر چوٹیوں کے مقابلے میں کیوں پر شکوہ سمجھا جاتا ہے؟ نانگا پربت کے پر شکوہ ہونے کی وجہ اس کی شدت کے ساتھ ترشی ہوئی کھڑی چٹانیں اور ڈھلا نیں ہیں ۔ یہ چٹانیں عمودی شکل میں چلی گئی ہیں۔ یہ چٹانیں شمال میں سطح زمین سے صرف 142/1میل کر اندر 23ہزار ایک سو فٹ کی بلندی تک پہنچ جاتی ہیں۔ نانگا پربت کے پر شکوہ ہونے کی دوسری وجہ اس کی وسعت ہے۔ ایک امریکی جان کلارک نے اپنی کتاب ’’ ہنزہ ‘‘ میں لکھا ہے:
’’ ہمارا طیارہ دریائے سندھ کے بڑے موڑ کے ساتھ ساتھ اڑ رہا تھا۔نانگا پربت ہمارے داہنے طرف تھا۔ اس کی خوفناک چوٹی ہم سے دو میل اونچی تھی۔یہ چوٹی ایسی دیو پیکر تھی کہ ہمیں اس کے پاس سے گزرنے میں پورے پندرہ منٹ لگ گئے۔‘‘
مشہور امریکی رسالے’’نیشنل جیو گرافک ‘‘ میں ایک مضمون نگار لکھتا ہے:
’’ ایک ایسا شخض جو پہلی مرتبہ طیارے سے سفر کر رہا ہو جب یہ دیکھتا ہے کہ نانگا پربت جس کی چوٹی بادلوں میں چھپی ہوئی ہے اچانک ایک دیوارکی طرح سامنے آتی ہے اور دیکھنے والاخوف سے کانپ جاتا ہے۔ ‘‘
نانگا پربت کے پر شکوہ ہونے کی تیسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ دور دور تک کوئی دوسرا پہاڑ اس کے مد مقابل نہیں ہے۔ نانگا پر بت کا دل آویز نظارہ کرنے کے لیے کوہ بابو سر اگرچہ مناسب جگہ ہے اور کم ازکم اب تک یہی وہ واحد مقام ہے جہاں مسافر اور سیاح آسانی سے پہنچ سکتے ہیں۔ نانگا پر بت کا برف پوش پہاڑ پاکستان کو قدرت کا ایک ایسا عطیہ ہے جس پر ہم بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں ۔ نانگا پربت کا حسن اور اس کی دلکشی ایک انفرادیت رکھتی ہے۔ اس کی مثال نہ کا غان کی حسین وادی پیش کر سکتی اور نہ سوئٹزر لینڈ۔